احاديث كے عقل کے مخالف ہونے سے متعلقہ شبہات

حديث میں نوجوان کی رضاعت کا ذکر ہے!

حدیث میں آتا ہے حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ، انہوں نے کہا: سہلہ بنت سہیل ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں سالم ؓ کے گھر آنے کی بنا پر (اپنے شوہر) ابوحذیفہ ؓ کے چہرے میں (تبدیلی) دیکھتی ہوں ۔۔ حالانکہ وہ ان کا حلیف بھی ہے ۔۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا: "اسے دودھ پلا دو۔” انہوں نے عرض کی: میں اسے کیسے دودھ پلاؤں؟ جبکہ وہ بڑا (آدمی) ہے۔ رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا: "میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ بڑا آدمی ہے۔( صحیح مسلم:1453)
کیا یہ معقول ہے کہ اللہ کے نبی ﷺایک بڑے آدمی کے لئے اس طرح ایک عورت کو دودھ پلانے کا حکم دیں!

حدیث میں عورت کو کم عقل اور کم دین کہا گیا !

ايک حدیث میں عورت کو کم عقل اور کم دین کہا گیا.ديكھیں: صحيح بخارى ( ۳۰۴)، وصحيح مسلم ( ۲۴۰). اور يہ  عورت كے عزت واحترام كے منافى ہے۔ اس حديث ميں جس جملہ كو قابل اعتراض سمجھا جارہا ہے اسى حديث ميں اس كى وضاحت موجود ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے عورت كى عقل کی کمی  كو عورت كى بعض معاملات میں آدھی گواہی ہونا بيان فرمايا، جو ازروئے قرآن مجيد ثابت ہے،

عورت نمازى كے آگے سے گزرے تو نماز ٹوٹ جاتى ہے!

بعض احادیث میں آیا ہے کہ نماز ميں اگر عورت، يا گدھا اور كتا سامنے سے گزریں تو نماز ٹوٹ جاتى ہے، عورت كو دو جانوروں كے ساتھ ذكر كرنا يہ  عورت كے عزت واحترام كے منافى ہے۔

اونٹنی کے دودھ کے ساتھ پیشاب ملا کر پینا

حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کچھ لوگوں کو بيمارى سے شفايابى كے ليے اونٹنی کا پیشاب پینے کو کہا جبکہ پیشاب ناپاک اور نقصان ده چیز ہے ، ایسی چیز کے بارے میں نبی کریم ﷺ پینے  كا حکم نہیں دے سکتے۔  (صحیح بخاری: 233 ، 1501 ، 4192 ، 6805)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بوقتِ نکاح عمر کیا تھی؟

نبی کریم  ﷺ نے سیدہ عائشہ سے مکہ میں  نكاح كيا جس وقت  سیدہ عائشہ کی عمر چھ سال تھی، مدینہ میں ہجرت کے پہلے سال رخصتی ہوئی اس وقت سیدہ عائشہ کی عمر نو سال تھی۔ ( صحیح بخاری:  5134، صحیح مسلم:  1422 )
اس حدیث پر اسنادی، عقلی اور تاریخى  لحاظ سے مختلف اعتراضات کیے جاتے ہیں،  ان  اعتراضات کی حقیقت پیشِ خدمت ہے۔

حضرت عائشہ سے كم عمرى ميں شادى مناسب نہیں!

حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال اور رخصتی کے وقت نو سال کی تھی۔  (صحیح بخاری : 5134 )  اس کم عمری میں عورت کے ساتھ شادی ظلم ہے کیونکہ وہ ابھی اس قابل ہی نہیں ہوئی۔

کم سنی  میں نبی کریم ﷺ كا سینہ چاک کیا جانا اور شیطان کا ایمان لانا

حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ کم سنی میں نبی کریم ﷺ کا شق صدر (سینہ چاک) کیا گیااور یہ بھی بیان ہوا ہے کے شیطان بھی آپ ﷺ پر ایمان لے آیا   (دیکھئے : صحیح مسلم : 162 ، 2814  ) یہ دونوں باتیں خلافِ عقل معلوم ہوتی  ہیں كيونكہ انسانی طبیعت میں سینہ کا یوں چاک کیا جانا ممکن نہیں  اس لیے یہ واقعہ  خیالی اور غیر معقول ہے ۔ 

حضرت موسى عليہ السلام كا ملك الموت كو طمانچہ مارنا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالنا

 جیسا کہ حدیث میں آتاہےكہ  سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ملک الموت ( آدمی کی شکل میں ) موسی علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے۔ وہ جب آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے ( نہ پہچان کر ) انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔  ( صحیح بخاری حديث نمبر:1339) شبہ یہ ہے کہ کسی پیغمبر کی شان سےبعیدہے کہ وہ موت كو ناپسندجانے اور موت کے فرشتے کو بلا وجہ تھپڑ مارے کہ اس کی آنکھ پھوٹ جائے

موسی علیہ السلام کا برہنہ پتھر کے پیچھے دوڑنا!

حدیث میں ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام برہنہ پتھر کے پیچھے دوڑے یہ واقعہ ایک نبی کی شان و عظمت کے خلاف ہے بھلا ایک نبی  برہنہ دوڑ نہیں سکتے ۔  نیز پتھر کا آگے آگے بھاگنا بھی عقل کے خلاف ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ   ابوہریرہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا’’بنی اسرائیل ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہو کر غسل کرتے اور ایک دوسرے کو دیکھتے تھے، جبکہ موسی تنہا نہاتے۔ بنی اسرائیل نے کہا: اللہ کی قسم!موسی  ہمارے ساتھ اس لیے غسل نہیں کرتے کہ وہ مرض فتق میں مبتلا ہیں۔ اتفاق سے ایک دن موسی نے نہاتے وقت اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیے۔ ہوا یوں کہ وہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر بھاگ نکلا۔ حضرت موسیٰ اس کے تعاقب میں یہ کہتے ہوئے دوڑے! اے پتھر! میرے کپڑے دے دے۔ اے پتھر! میرے کپڑے دے دےیہاں تک کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ کو دیکھ لیا اور کہنے لگے: واللہ! موسیٰ کو کوئی بیماری نہیں۔ حضرت موسیٰ نے اپنے کپڑے لیے اور پتھر کو مارنے لگے۔‘‘   ابوہریرہ  نے فرمایا: اللہ کی قسم! موسیٰ کی مار کے چھ یا سات نشان اس پتھر پر اب بھی موجود ہیں۔ (صحیح البخاری: 278 ، 3404، صحیح مسلم : 339)

گرمی کا موسم جہنم کے سانسوں میں سے ہونا خلاف ِ عقل و سائنس ہے!

سائنس کہتی ہے کہ سورج اور زمین کی قربت موسم پر اثر انداز ہوتی ہے جبکہ حدیث میں ہےکہ یہ جہنم کے سانسوں میں سے ہے؟ اور جہنم کا کلام کرنا بھی عقل کے خلاف ہے ؟ (البخاري  3087، مسلم 617)۔ جہنم کا اپنے رب سے شکایت کرنا عقل یا سائنس کے خلاف نہیں ، یہ امور ِ غیبیہ میں سے ہے  جسے ہم دنیوی عقل و آلات کی بنیاد پر نہیں  پرکھ  سکتے ۔