حديث كى كتابت ميں كافى تاخير ہوئی !
کہا جاتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانہ اقدس میں لکھائی کا رواج عام نہیں تھا اور احادیث کی جمع و تدوین رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کے دو یا اڑھائی سو سال بعد اس وقت ہوئی جب امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابو داؤد، امام ترمذى وغیرہ نے احادیث جمع کرنے کا کام شروع کیا، لہٰذا ذخیرہ حدیث تاخير سے جمع ہونے كى وجہ سے قابل اعتماد نہیں۔
عجمی سازش كا فسانہ !
اس شبہ کا مطلب یہ ہے كہ جب اسلامی فتوحات نےپہلی صدی ميں اپنی مخالف طاقتوں كو مسل كر ركھ دیاتھا ايران روس تركستان اور فارس کی عجمی شہنشاہیت كو ہمیشہ كے ليے ختم كرديا تو مفتوح قوموں نے انتقام کے لیے نہ تلواریں اٹھائیں نہ توپیں بلکہ حدیثوں کے بم بنا کر فاتحین کی پسلیاں توڑ دیں اور انهيں قرآن كريم سے دور كرنے کےليے سازش رچی!
حدیث لکھنے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائى!
صحیح مسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری طرف سے نہ لکھو، اور جس شخص نے میری طرف سے قرآن مجيد کے علاوہ كچھ لكھا اسے مٹا دے”۔ (صحیح مسلم: 3004)
چنانچہ اگر حديث دين کے ضرورى امور میں سے ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لکھنے اور جمع کرنے کا حکم دیتے جیسا کہ وہ قرآن مجيد کے ساتھ کیا، نا كہ اس کو مٹانے کا حکم دیتے!
سنت کی تدوین بغیر کسی سابقہ تحریری ریکارڈ کے ہوئی!
اس شبہ کا حاصل یہ ہے کہ جب احادیث بغیر کسی سابقہ تحریری ریکارڈ کے صرف زبانی جمع کیں گئیں تو ان پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے! یہ کہنا کہ سنت کی تدوین بغیر کسی سابقہ تحریری ریکارڈ کے ہوئی ،علم حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے کیونکہ احادیث لکھی گئی تھیں جیساکہ سابقہ شبہ(حدیث لکھنے سے نبی ﷺ کی ممانعت!) میں دلائل سے ثابت کیا جا چکاہے تو یہ شبہ جڑسے ہی ختم ہوجاتا ہے۔