سنت رسول اللہ ﷺ کے بارے میں عمومی شبہات

محدثين نے صرف سند كى چھان بين كى اور الفاظ حديث كو نظر انداز كر ديا!

محدثين نے صرف سند (حديث بيان كرنے والے راوى = chain of narration) كى چھان بين كا اہتمام کیا اور متن (الفاظ حديث = text)، جس كى چھان بين كى زيادہ ضرورت تھی، اس كو نظر انداز كر ديا، جبکہ اصل تو متن ہی ہے اور احکام ومسائل بھی اسی سے ثابت ہوتے ہیں، چنانچہ اس وجہ سے احادیث كے معنى ومفھوم میں خلل واقع ہو گیا!۔

کیا عورت فتنہ ہے ؟

احادیث میں عورت کو فتنہ قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے :
ما تركت بعدي فتنة أضر على الرجال من النساء
رسول کریم ﷺنے فرمایا: میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر نقصان دینے والااور کوئی فتنہ نہیں چھوڑاہے۔(صحیح البخاری 5096)
جبکہ نبی کریم ﷺ عورت کے بارے میں اس قسم کے کلمات استعمال نہیں کرسکتے۔

رسول اللہ ﷺ کی احادیث صرف اپنے زمانے تک محدود ہیں!

مخالفين  کا دعویٰ ہے کہ سنت رسول ﷺ  ايسى باتوں پر مشتمل ہے جو ہر زمانے كے ليے قابل عمل نہیں، کیونکہ يہ وہ احکام ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے اس وقت کے حالات کے مطابق جاری کیے جو صرف اس زمانے کے مطابق تھے ۔

احاديث راويوں كى ذاتى فہم اور سوچ كے حساب سے مرتب كى گئی ہيں!

احاديث تاخیر سے جمع کی گئی ہیں، چنانچہ ان کے الفاظ عہد نبوى سے دورى اور طوالت کی وجہ سے ضائع ہوچکے تھے، احادیث جمع کرنے والے حدیث کو الفاظ کے ساتھ نہيں بلكہ ان کے معنی کے ساتھ لکھتے تھے ، الفاظ راویوں کے اپنے ہوتے تھے، چنانچہ حديث دراصل ان آدمیوں کے اقوال كا نام ہے جو غلطیوں سے پاک نہیں ۔

حديث كى كتابت ميں كافى تاخير ہوئی !

کہا جاتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانہ اقدس میں لکھائی کا رواج عام نہیں تھا اور احادیث کی جمع و تدوین رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کے دو یا اڑھائی سو سال بعد اس وقت ہوئی جب امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابو داؤد، امام ترمذى وغیرہ نے احادیث جمع کرنے کا کام شروع کیا، لہٰذا ذخیرہ حدیث تاخير سے جمع ہونے كى وجہ سے قابل اعتماد نہیں۔

مسلمانوں كو تو صرف (سنت ابراہیمى) كی اتباع كا حكم ديا گيا ہے۔

 سنت، دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی ﷺ نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ دین کی حیثیت سے جاری فرمایاقرآن ميں آپ کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اللہ تعالى فرماتا ہے: (ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ).   (سورة النحل:123).

حدیث لکھنے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائى!

صحیح مسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری طرف سے نہ لکھو، اور جس شخص نے میری طرف سے قرآن مجيد کے علاوہ  كچھ لكھا  اسے مٹا دے”۔ (صحیح مسلم: 3004)
چنانچہ اگر حديث دين کے ضرورى امور میں سے ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لکھنے اور جمع کرنے کا حکم دیتے جیسا کہ وہ قرآن مجيد کے ساتھ کیا، نا كہ اس کو مٹانے کا حکم دیتے!

بحيثيت مسلمان ہمیں صرف مركز ملت كى اطاعت كا حكم ديا گيا ہے

وہ آیات جن میں رسول اللہ ﷺکی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، وہ آپ ﷺکے لیے مخصوص نہیں ہیں، بلکہ ان سے مراد "مركز ملت” كى اطاعت ہے، جو وقت كا حاکم یا امام ہوتا ہے، جو قرآن مجيد كى روشنى ميں امت كى رہنمائی كرتا ہے!

کیا قرآن کریم میں حدیث نبوى کو لھو الحدیث کہا گیا ہے؟

جو بھی چیز قرآن كريم کے مقابلے میں پیش کی جائےیا قرآن كريم  سے مشغول کرے اسے قرآن نے لہو الحدیث کہاہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :  (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ) (سورۃ لقمان:6)
ترجمہ: اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو غافل کرنے والی بات خریدتا ہے، تاکہ جانے بغیر اللہ کے راستے سے گمراہ کرے اور اسے مذاق بنائے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
کیونکہ حدیث کو قرآن مجيد  کے مقابلے میں پیش کیاجاتا ہےاور قرآن مجيد اللہ کی راہ ہےتو جو کچھ بھی اللہ کے راہ سے ہٹائےوہ لہو الحدیث ہے!۔