حديث میں نوجوان کی رضاعت کا ذکر ہے!
حدیث میں آتا ہے حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ، انہوں نے کہا: سہلہ بنت سہیل ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں سالم ؓ کے گھر آنے کی بنا پر (اپنے شوہر) ابوحذیفہ ؓ کے چہرے میں (تبدیلی) دیکھتی ہوں ۔۔ حالانکہ وہ ان کا حلیف بھی ہے ۔۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا: "اسے دودھ پلا دو۔” انہوں نے عرض کی: میں اسے کیسے دودھ پلاؤں؟ جبکہ وہ بڑا (آدمی) ہے۔ رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا: "میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ بڑا آدمی ہے۔( صحیح مسلم:1453)
کیا یہ معقول ہے کہ اللہ کے نبی ﷺایک بڑے آدمی کے لئے اس طرح ایک عورت کو دودھ پلانے کا حکم دیں!
قرآن مجيد ميں حديث کو ماننے اور اس پر عمل کرنے سے منع كيا گيا ہے!
الله تعالى نے فرمايا : اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاء ( سورةالاعراف:3 )
ترجمہ: ”اس پرچلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اولیاء کے پیچھے مت چلو” اور فرمايا: فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ ( سورةالاعراف:185 )
ایسی روايات ملتى ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حديث حجت نہیں ہے!
ايك روايت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھ سے کوئی حدیث روایت کی جائے تو اسے کتاب الله پر پیش کرو، اگر وہ حديث كتاب الله سے متفق ہوتو اسے قبول کرنا اور اگر كتاب الله كے مخالف ہو تو اسے رد كردينا ۔يہ حديث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہو، اسے کتاب الله کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے، چنانچہ اگر حديث خود حجت ہوتى تو اپنے ثبوت كے ليے كسى دوسرى چيز كى محتاج نہ ہوتى ۔