قرآن کریم

احادیث کو تو جلانے کا حکم ديا گیا!

جب لوگوں نے نبیﷺ سے احادیث بیان کرنے کی اجازت مانگی تو انہیں اجازت دے دى گئی [مسند أحمد : 11092]۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جلانے کا مقصد حدیث کو ختم کروانا نہیں تھا ورنہ اسے روایت کرنے کی اجازت ہی نہ دی جاتی۔ اصل مقصد یہ تھا کہ حدیث اور قرآن ایک جگہ لکھنے کی وجہ سے خلط ملط نہ ہو جائے اور پھر لوگ ان دونوں میں فرق نہ کر پائیں۔

قرآنِ مجيد ميں حديث کو ماننے اور اس پر عمل کرنے سے منع كيا گيا ہے!

کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی رسول بھیجے اور اس پر وحی نازل فرمائے اور اس رسول کی اتباع کا حکم بھی دے اور پھر اسی رسول کو اپنا مدِ مقابل بتائے اور اس کی اتباع سے ڈرائے؟! یہ بات تو سراسر عدل و حکمت کے منافی ہے جو کہ اللہ رب العالمین کے حق میں محال ہے۔

اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرنے والی احادیث قرآن کریم کے مخالف ہیں۔

وہ احادیث جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان ہے ان میں تشبیہ اور تجسیم  مذکور ہے اس لیے  وہ قرآن کریم کی آیات سے متعارض ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ لیس کمثلہ شئی فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم  ](الشوری : 11) یعنی آسمان و زمین میں اللہ تعالیٰ  جیسی کوئی شے نہیں ہے اور وہ سمیع و علیم ہے۔