ahadees

کیا قرآن کریم میں حدیث نبوى کو لھو الحدیث کہا گیا ہے؟

جو بھی چیز قرآن كريم کے مقابلے میں پیش کی جائےیا قرآن كريم  سے مشغول کرے اسے قرآن نے لہو الحدیث کہاہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :  (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ) (سورۃ لقمان:6)
ترجمہ: اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو غافل کرنے والی بات خریدتا ہے، تاکہ جانے بغیر اللہ کے راستے سے گمراہ کرے اور اسے مذاق بنائے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
کیونکہ حدیث کو قرآن مجيد  کے مقابلے میں پیش کیاجاتا ہےاور قرآن مجيد اللہ کی راہ ہےتو جو کچھ بھی اللہ کے راہ سے ہٹائےوہ لہو الحدیث ہے!۔

بنو اميہ كا ذكر حديث نبوىﷺ ميں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سچوں کے سچے رسول کریم ﷺ سے سنا ہے ، آپ فرمارہے تھے کہ میری امت کی بربادی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں پر ہوگی ۔(صحیح بخاری:3605)
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے یزید بن ابی سفیان سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ ‌سے سنا فرما رہے تھے: پہلا شخص جو میری سنت(طریقے)کو تبدیل کرے گا بنو امیہ میں سے ہوگا۔(مصنف ابن ابى شيبہ: 20/156،سلسلۃ الاحاديث الصحیحۃ:1749)
ان دونوں احادیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کے آپ ﷺ نے بنو امیہ کی مذمت فرمائی!

ذخیرہ احادیث میں متواتر احادیث موجود نہیں

بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ متواتر احاديث اپنا وجود نہیں رکھتیں ، زیادہ سے زیادہ ایک حدیث : مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
ترجمہ: جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کےٹھکانے کےلیے تیار رہنا چاہیے۔ كو متواتر قرار ديا گيا ہے، یا صرف سترہ احادیث کے بارے میں یہ كہا گيا ہے كہ يہ متواتر ہیں ۔

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے شکم سیری کے لیے احادیث جمع کیں۔

ایک حدیث میں ہےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے دروازے کے باہر حدیث کے حصول کے لیے  پڑا رہتا بسا اوقات بھوک کے مارے میری حالت متغیر ہوجاتی ۔(صحیح بخاری : 2047).
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے  کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کی رفاقت صرف شکم سیری کے لیے اختیار کی تھی  ، دینی مقصد نہ تھا۔ والعیاذ باللہ

احاديث راويوں كى ذاتى فہم اور سوچ كے حساب سے مرتب كى گئی ہيں!

احاديث تاخیر سے جمع کی گئی ہیں، چنانچہ ان کے الفاظ عہد نبوى سے دورى اور طوالت کی وجہ سے ضائع ہوچکے تھے، احادیث جمع کرنے والے حدیث کو الفاظ کے ساتھ نہيں بلكہ ان کے معنی کے ساتھ لکھتے تھے ، الفاظ راویوں کے اپنے ہوتے تھے، چنانچہ حديث دراصل ان آدمیوں کے اقوال كا نام ہے جو غلطیوں سے پاک نہیں ۔

ابو ہریرہ رضى الله عنہ كے پاس كثير احاديث كيسے؟

ابوہریرہ سے جو احادیث مروی ہیں وہ دیگر صحابہ سے مروی نہیں حالانکہ سیدنا ابوہریرہ اسلام بھی بہت بعد میں لائے ۔ ان کی کل مرویات كى تعداد پانچ ہزار سے زائد ذكر كى گئی ہیں ، جو خلفاء اربعہ و  دیگر صحابہ کی مرویات سے کئی گنا زیادہ ہیں۔