ahadith

کیا قرآن کریم میں حدیث نبوى کو لھو الحدیث کہا گیا ہے؟

جو بھی چیز قرآن كريم کے مقابلے میں پیش کی جائےیا قرآن كريم  سے مشغول کرے اسے قرآن نے لہو الحدیث کہاہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :  (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ) (سورۃ لقمان:6)
ترجمہ: اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو غافل کرنے والی بات خریدتا ہے، تاکہ جانے بغیر اللہ کے راستے سے گمراہ کرے اور اسے مذاق بنائے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
کیونکہ حدیث کو قرآن مجيد  کے مقابلے میں پیش کیاجاتا ہےاور قرآن مجيد اللہ کی راہ ہےتو جو کچھ بھی اللہ کے راہ سے ہٹائےوہ لہو الحدیث ہے!۔

حدیث قول رسول نہیں،بلکہ قول رسول تو قرآن کریم ہے!

حدیث قول رسول نہیں جیسا کہ دعوی کیا جاتا ہے،  قول رسول تو قرآن کریم ہے! کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ حدیث رسول  اللہ ﷺکا قول ہے ، اور قرآن کریم سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول  اللہ ﷺکا قول تو قرآن کریم ہی ہے۔
 اللہ تعالی فرماتا ہے:  إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ( سورۃ الحاقۃ:40 )
ترجمہ: بلاشبہ یہ (قرآن) یقیناً ایک معزز پیغام لانے والے کا قول ہے۔

بنو اميہ كا ذكر حديث نبوىﷺ ميں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سچوں کے سچے رسول کریم ﷺ سے سنا ہے ، آپ فرمارہے تھے کہ میری امت کی بربادی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں پر ہوگی ۔(صحیح بخاری:3605)
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے یزید بن ابی سفیان سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ ‌سے سنا فرما رہے تھے: پہلا شخص جو میری سنت(طریقے)کو تبدیل کرے گا بنو امیہ میں سے ہوگا۔(مصنف ابن ابى شيبہ: 20/156،سلسلۃ الاحاديث الصحیحۃ:1749)
ان دونوں احادیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کے آپ ﷺ نے بنو امیہ کی مذمت فرمائی!

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے شکم سیری کے لیے احادیث جمع کیں۔

ایک حدیث میں ہےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے دروازے کے باہر حدیث کے حصول کے لیے  پڑا رہتا بسا اوقات بھوک کے مارے میری حالت متغیر ہوجاتی ۔(صحیح بخاری : 2047).
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے  کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کی رفاقت صرف شکم سیری کے لیے اختیار کی تھی  ، دینی مقصد نہ تھا۔ والعیاذ باللہ

احاديث كى جانچ پڑتال كرنے سے دينى روح متاثر ہوتى ہے!

احادیث كے ذخيرہ پر جو علمى  تنقید کی گئی،اس کی وجہ سے وہ روحانيت اور دينى روح کی خصوصیت سے محروم ہو گئے، کیونکہ مذہبی معاملات  ميں لوگوں كى آراءشامل نہیں ہونی چاہئیں!  علم حدیث میں حدیث کی چھان پھٹک کا جو کام ہوا وہ ا س کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ کسی بھی قیمتی چیز کے حصول میں ہر ممکن تحقیق کو بروئے کار لایا جاتا ہے تاکہ اس میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ سے بچا جا سکے۔

ایسی روايات ملتى ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حديث حجت نہیں ہے!

ايك روايت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھ سے کوئی حدیث روایت کی جائے تو اسے  کتاب الله  پر  پیش کرو، اگر وہ حديث كتاب الله سے متفق ہوتو اسے قبول کرنا  اور اگر كتاب الله كے مخالف ہو تو اسے رد كردينا ۔يہ حديث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہو، اسے کتاب الله  کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے، چنانچہ اگر حديث خود حجت ہوتى تو اپنے ثبوت كے ليے كسى دوسرى چيز كى محتاج نہ ہوتى ۔

احاديث راويوں كى ذاتى فہم اور سوچ كے حساب سے مرتب كى گئی ہيں!

احاديث تاخیر سے جمع کی گئی ہیں، چنانچہ ان کے الفاظ عہد نبوى سے دورى اور طوالت کی وجہ سے ضائع ہوچکے تھے، احادیث جمع کرنے والے حدیث کو الفاظ کے ساتھ نہيں بلكہ ان کے معنی کے ساتھ لکھتے تھے ، الفاظ راویوں کے اپنے ہوتے تھے، چنانچہ حديث دراصل ان آدمیوں کے اقوال كا نام ہے جو غلطیوں سے پاک نہیں ۔

ابو ہریرہ رضى الله عنہ كے پاس كثير احاديث كيسے؟

ابوہریرہ سے جو احادیث مروی ہیں وہ دیگر صحابہ سے مروی نہیں حالانکہ سیدنا ابوہریرہ اسلام بھی بہت بعد میں لائے ۔ ان کی کل مرویات كى تعداد پانچ ہزار سے زائد ذكر كى گئی ہیں ، جو خلفاء اربعہ و  دیگر صحابہ کی مرویات سے کئی گنا زیادہ ہیں۔

احادیث کے راوی بشر ہیں اور بشر خطا سے محفوظ نہیں!

احادیث کو راویت کرنے والے راوی بشر ہیں، اوریہ ایک معلوم بات ہے کہ بشر خطا سے مبرانہیں ہوتا تو پھر ذخیرہ حدیث پر اعتماد کیسا!۔ یہ اللہ تعالٰی کا بنایاہواقانون ہے کہ بشر اپنی زندگی سے متعلق امور کو خود ہی انجام دیتے ہیں نہ کہ ان کے امور فرشتے یا کوئی اور مخلوق انجام دیتی ہےتواس طرح بشر کے ذریعہ احادیث کی روایت کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی احادیث کی صحت پر کوئی داغ ہےکیونکہ بشریت اپنے آپ میں نقص نہیں ہے بلکہ یہ کمال اور نقص ہرانسان کے اپنے کئے پرمنحصر ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی احادیث صرف اپنے زمانے تک محدود ہیں!

مخالفين  کا دعویٰ ہے کہ سنت رسول ﷺ  ايسى باتوں پر مشتمل ہے جو ہر زمانے كے ليے قابل عمل نہیں، کیونکہ يہ وہ احکام ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے اس وقت کے حالات کے مطابق جاری کیے جو صرف اس زمانے کے مطابق تھے ۔

  • 1
  • 2