hadith

کیا قرآن کریم میں حدیث نبوى کو لھو الحدیث کہا گیا ہے؟

جو بھی چیز قرآن كريم کے مقابلے میں پیش کی جائےیا قرآن كريم  سے مشغول کرے اسے قرآن نے لہو الحدیث کہاہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :  (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ) (سورۃ لقمان:6)
ترجمہ: اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو غافل کرنے والی بات خریدتا ہے، تاکہ جانے بغیر اللہ کے راستے سے گمراہ کرے اور اسے مذاق بنائے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
کیونکہ حدیث کو قرآن مجيد  کے مقابلے میں پیش کیاجاتا ہےاور قرآن مجيد اللہ کی راہ ہےتو جو کچھ بھی اللہ کے راہ سے ہٹائےوہ لہو الحدیث ہے!۔

کیا حضرت معاویہ رضى الله عنه وحی کے کاتب تھے؟

سیدنا معاویہ بن ابى سفيان رضی اللہ عنہ کی شخصیت سے متعلق اعتراضات میں سے  ایک مشہور اعتراض یہ کیا جاتا ہے  کہ آپ کا شمار کاتبین وحی (قرآن وحديث لكھنے والے) میں نہیں ہوتا۔

ذخیرہ احادیث میں متواتر احادیث موجود نہیں

بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ متواتر احاديث اپنا وجود نہیں رکھتیں ، زیادہ سے زیادہ ایک حدیث : مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
ترجمہ: جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کےٹھکانے کےلیے تیار رہنا چاہیے۔ كو متواتر قرار ديا گيا ہے، یا صرف سترہ احادیث کے بارے میں یہ كہا گيا ہے كہ يہ متواتر ہیں ۔

حدیث لکھنے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائى!

صحیح مسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری طرف سے نہ لکھو، اور جس شخص نے میری طرف سے قرآن مجيد کے علاوہ  كچھ لكھا  اسے مٹا دے”۔ (صحیح مسلم: 3004)
چنانچہ اگر حديث دين کے ضرورى امور میں سے ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لکھنے اور جمع کرنے کا حکم دیتے جیسا کہ وہ قرآن مجيد کے ساتھ کیا، نا كہ اس کو مٹانے کا حکم دیتے!

سنت کی تدوین بغیر کسی سابقہ تحریری ریکارڈ کے ہوئی!

اس شبہ کا حاصل  یہ ہے کہ جب احادیث بغیر کسی سابقہ تحریری ریکارڈ کے صرف زبانی جمع کیں گئیں تو ان پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے! یہ کہنا کہ سنت کی تدوین بغیر کسی سابقہ تحریری ریکارڈ کے ہوئی ،علم حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے کیونکہ احادیث لکھی گئی تھیں جیساکہ سابقہ شبہ(حدیث لکھنے سے نبی ﷺ کی ممانعت!) میں دلائل سے ثابت کیا جا چکاہے تو یہ شبہ جڑسے ہی ختم ہوجاتا ہے۔

احاديث كى جانچ پڑتال كرنے سے دينى روح متاثر ہوتى ہے!

احادیث كے ذخيرہ پر جو علمى  تنقید کی گئی،اس کی وجہ سے وہ روحانيت اور دينى روح کی خصوصیت سے محروم ہو گئے، کیونکہ مذہبی معاملات  ميں لوگوں كى آراءشامل نہیں ہونی چاہئیں!  علم حدیث میں حدیث کی چھان پھٹک کا جو کام ہوا وہ ا س کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ کسی بھی قیمتی چیز کے حصول میں ہر ممکن تحقیق کو بروئے کار لایا جاتا ہے تاکہ اس میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ سے بچا جا سکے۔

قرآن مجيد ميں حديث کو ماننے اور اس پر عمل کرنے سے منع كيا گيا ہے!

الله تعالى نے فرمايا : اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاء ( سورةالاعراف:3 )
ترجمہ: ”اس پرچلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اولیاء کے پیچھے مت چلو” اور فرمايا: فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ ( سورةالاعراف:185 )

سنت رسول ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نہیں ہے!

الله تعالى نے قرآن مجيد ميں اس بات كى اطاعت كا حكم ديا ہے جو اس كى طرف سے نازل كرده ہو، اور اسى كا نام وحى الہٰى ہے، جو كہ صرف قرآن مجيد ہے. ہر مسلمان كو جانا  چاہيے كہ سنت   نبوى صلى اللہ عليہ وسلم چاہے وه  افعال ہوں يا اقوال يہ وحى الہى كى دو قسموں ميں سے دوسرى  قسم ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كى گئى، اور وحى كى پہلی قسم يقينا قرآن كريم ہے.

حديث كى كتابت ميں كافى تاخير ہوئی !

کہا جاتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانہ اقدس میں لکھائی کا رواج عام نہیں تھا اور احادیث کی جمع و تدوین رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کے دو یا اڑھائی سو سال بعد اس وقت ہوئی جب امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابو داؤد، امام ترمذى وغیرہ نے احادیث جمع کرنے کا کام شروع کیا، لہٰذا ذخیرہ حدیث تاخير سے جمع ہونے كى وجہ سے قابل اعتماد نہیں۔

ایسی روايات ملتى ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حديث حجت نہیں ہے!

ايك روايت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھ سے کوئی حدیث روایت کی جائے تو اسے  کتاب الله  پر  پیش کرو، اگر وہ حديث كتاب الله سے متفق ہوتو اسے قبول کرنا  اور اگر كتاب الله كے مخالف ہو تو اسے رد كردينا ۔يہ حديث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہو، اسے کتاب الله  کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے، چنانچہ اگر حديث خود حجت ہوتى تو اپنے ثبوت كے ليے كسى دوسرى چيز كى محتاج نہ ہوتى ۔

  • 1
  • 2