hadith

حدیث  میں ہے کہ شر (بُرائى) اللہ تعالى کی طرف سے نہیں! یہ بات تو قرآن مجيد سے ٹكراتی ہے۔

قرآن کریم میں ہے کہ ہر معاملے کا واقع ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جبکہ حدیث میں ہے کہ: والشر لیس الیک ( صحیح مسلم ) ترجمہ: شرآپ کی طرف سے نہیں ہے۔ یہ حدیث قرآن سے ٹکراتی ہے۔ لہذا ناقابل اعتبار ہے۔

احادیث کے راوی بشر ہیں اور بشر خطا سے محفوظ نہیں!

احادیث کو راویت کرنے والے راوی بشر ہیں، اوریہ ایک معلوم بات ہے کہ بشر خطا سے مبرانہیں ہوتا تو پھر ذخیرہ حدیث پر اعتماد کیسا!۔ یہ اللہ تعالٰی کا بنایاہواقانون ہے کہ بشر اپنی زندگی سے متعلق امور کو خود ہی انجام دیتے ہیں نہ کہ ان کے امور فرشتے یا کوئی اور مخلوق انجام دیتی ہےتواس طرح بشر کے ذریعہ احادیث کی روایت کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی احادیث کی صحت پر کوئی داغ ہےکیونکہ بشریت اپنے آپ میں نقص نہیں ہے بلکہ یہ کمال اور نقص ہرانسان کے اپنے کئے پرمنحصر ہے۔

حديث كے مشہور راوى” امام زہری” خود سے احاديث گھڑليا كرتے تھے!

امام زہری پر احاديث گھڑنے کی تہمت لگائی گئی ہے!۔ مشہور مستشرق (Orientilist) گولڈزیہر لکھتا ہے : عبد الملک بن مروان نے ابن الزبیر کے فتنے میں لوگوں کو حج کرنے سے روکا۔ اور اس نے مسجد اقصیٰ میں گنبدصخرہ بنایا تاکہ لوگ اس کی زیارت(حج) کریں اور کعبہ کے بجائے اس کا طواف کریں، پھر اس نے لوگوں کو مذہبی عقیدے کے ساتھ اس کی زیارت (حج) کروانا چاہا۔چنانچہ اس نے امام زہری کو پایا، جو ملت اسلامیہ میں مشہور تھے، اور احادیث گھڑنے کے لیے تیار تھے، تو  امام زہری نے حدیثیں گھڑ لیں۔