murder

قاتل ومقتول دونوں جہنمی كيسے؟

جب  دو مسلمان ایک دوسرے کے خلاف تلوار اٹھائیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے.(صحیح بخارى: 31، صحیح مسلم: 2888) كا كيا مطلب،  جبکہ قرآن کریم میں ہے کہ:
 وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ   ( الحجرات:9 )
ترجمہ: اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کروا دو ۔ پھر ان میں سے اگر ایک گروہ دوسرے سے زیادتی کرے تو اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے اور پھر جب وہ اللہ کی طرف پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل اور انصاف سے صلح کرادو،  اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔

آدم علیہ السلام کے بیٹے کو قیامت تک کے قتلوں کا گناہ ملنا

بعض معترضین کا کہنا ہے کہ حدیث میں ہے: لاَ تُقْتَل نَفْسٌ إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْهَا ( صحیح البخاری:6867 )
ترجمہ:قیامت تک ہونے والے قتل کا گناہ آدم کے پہلے بیٹے کوبھی ملتا رہے گا کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کیا۔ جبکہ قرآن کریم میں ہے کہ: وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ( الاسراء:15 ) ترجمہ: کوئی نفس کسی نفس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ نیزیہ حدیث اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کے بھی منافی معلوم ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لانے والے کو قتل کرنے کا حکم!!

 اس شبہ كى اصل وجہ حدیث کا غلط فہم ہے، اس حدیث میں دو الفاظ ایسے ہیں جن کا غلط معنیٰ سمجھا گیا ہے، ایک لفظ ’’أقاتل‘‘اور دوسرا لفظ ’’الناس‘‘ہے۔ یہ سمجھنا کے’’أقاتل‘‘کا معنی محض قتل کرنا ہے یہ غلط فہمی ہےکیونکہ عربی زبان میں اس صیغہ کا استعمال اس صورت میں ہوتا ہے جب لڑائی دونوں جانب سے ہو۔۔