نبی کریم ﷺ کے معجزات (Miracles) قصے کہانیاں تھے حقیقت نہ تھے
بعض حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے حوالے سے بیان کردہ معجزات حقیقت نہ تھے بلکہ کہانیاں ہیں۔ جن میں کوئی صداقت نہیں اور نہ ہی عقل ان غير معمولى واقعات کو تسلیم کرتی ہے۔
قرآن مجيد ميں حديث کو ماننے اور اس پر عمل کرنے سے منع كيا گيا ہے!
الله تعالى نے فرمايا : اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاء ( سورةالاعراف:3 )
ترجمہ: ”اس پرچلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اولیاء کے پیچھے مت چلو” اور فرمايا: فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ ( سورةالاعراف:185 )
صرف قرآن مجيد ہی مكمل دين کى وضاحت كے ليے كافى ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: }ما فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ } [سورة الأنعام، الآية: 38]. ترجمہ: {ہم نے کتاب میں کسی چیز کو نظرانداز نہیں کیا} [سورۃ الانعام، آیت: 38]۔ اور فرماتا ہے: } وَنَزَّلْنَا عَلَيْك الْكِتَاب تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْء {[سورة النحل، الآية: 89]. ترجمہ: {اور ہم نے آپ پر ہر چیز کی وضاحت کرنے والی کتاب نازل کی ہے} [سورۃ النحل، آیت: 89]۔ ان آيات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں دین کے تمام معاملات اور احکام موجود ہیں، اور كتاب نے ان كو مکمل طور پر واضح کیا ہے، تاکہ کسی اور چیز کی ضرورت نہ رہے ، چاہے سنت ہو يا كچھ اور، اور اگر ايسا نا ہوتویہ كتاب ہر چیز کی وضاحت نہیں سمجھی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرنے والی احادیث قرآن کریم کے مخالف ہیں۔
وہ احادیث جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان ہے ان میں تشبیہ اور تجسیم مذکور ہے اس لیے وہ قرآن کریم کی آیات سے متعارض ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ لیس کمثلہ شئی فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم ](الشوری : 11) یعنی آسمان و زمین میں اللہ تعالیٰ جیسی کوئی شے نہیں ہے اور وہ سمیع و علیم ہے۔
سنت رسول ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نہیں ہے!
الله تعالى نے قرآن مجيد ميں اس بات كى اطاعت كا حكم ديا ہے جو اس كى طرف سے نازل كرده ہو، اور اسى كا نام وحى الہٰى ہے، جو كہ صرف قرآن مجيد ہے. ہر مسلمان كو جانا چاہيے كہ سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم چاہے وه افعال ہوں يا اقوال يہ وحى الہى كى دو قسموں ميں سے دوسرى قسم ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كى گئى، اور وحى كى پہلی قسم يقينا قرآن كريم ہے.
حدیث میں ہے کہ شر (بُرائى) اللہ تعالى کی طرف سے نہیں! یہ بات تو قرآن مجيد سے ٹكراتی ہے۔
قرآن کریم میں ہے کہ ہر معاملے کا واقع ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جبکہ حدیث میں ہے کہ: والشر لیس الیک ( صحیح مسلم ) ترجمہ: شرآپ کی طرف سے نہیں ہے۔ یہ حدیث قرآن سے ٹکراتی ہے۔ لہذا ناقابل اعتبار ہے۔
الله تعالیٰ نےصرف قرآن مجيد کی حفاظت کا ذمہ ليا ہے!
مذکورہ آیت سے یہ بات سمجھ آتى ہے کہ الله تعالى نے قرآن مجيد کی حفاظت کا ذمہ ليا، اور اگر حديث نبوى قرآن كريم کی طرح حجت اور دلیل ہوتی تو اس كى بھی حفاظت كا انتظام الله تعالى كى طرف سے ہوتا۔