ravi

امام زہری نے بنو امیہ کی مدد سے احادیث گھڑیں!؟

وضاحت شبہ : معترضین کا کہنا ہے کہ حدیث بنی امیہ کے دور کی پیداوار ہے۔ اس مقصد کے لیے معروف تابعى امام زہری نے بڑا کردار ادا کیا ، ابراہیم بن ولید اموی امام زہری کے پاس ایک صحیفہ لایا جس میں اپنی من پسند روایتیں لکھ لی تھیں اور زہری سے اس کی…

احادیث کو تو جلانے کا حکم ديا گیا!

جب لوگوں نے نبیﷺ سے احادیث بیان کرنے کی اجازت مانگی تو انہیں اجازت دے دى گئی [مسند أحمد : 11092]۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جلانے کا مقصد حدیث کو ختم کروانا نہیں تھا ورنہ اسے روایت کرنے کی اجازت ہی نہ دی جاتی۔ اصل مقصد یہ تھا کہ حدیث اور قرآن ایک جگہ لکھنے کی وجہ سے خلط ملط نہ ہو جائے اور پھر لوگ ان دونوں میں فرق نہ کر پائیں۔

احاديث جمع كرنے والے عجمی (غیر عرب) ہی كيوں ؟

اگر کسی عجمی کا احادیث کو جمع کرنا حدیث کو مشکوک بناتا ہے تو پھر دین کے باقی علوم جن میں سرِ فہرست خود عربی زبان ہے کیوں کر قابلِ اعتبار ہو سکتے ہیں کیونکہ انكی خدمت کا سہرا بھی عجمیوں کے سر ہے!

احاديث كى جانچ پڑتال كرنے سے دينى روح متاثر ہوتى ہے!

احادیث كے ذخيرہ پر جو علمى  تنقید کی گئی،اس کی وجہ سے وہ روحانيت اور دينى روح کی خصوصیت سے محروم ہو گئے، کیونکہ مذہبی معاملات  ميں لوگوں كى آراءشامل نہیں ہونی چاہئیں!  علم حدیث میں حدیث کی چھان پھٹک کا جو کام ہوا وہ ا س کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ کسی بھی قیمتی چیز کے حصول میں ہر ممکن تحقیق کو بروئے کار لایا جاتا ہے تاکہ اس میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ سے بچا جا سکے۔

ایسی روايات ملتى ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حديث حجت نہیں ہے!

ايك روايت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھ سے کوئی حدیث روایت کی جائے تو اسے  کتاب الله  پر  پیش کرو، اگر وہ حديث كتاب الله سے متفق ہوتو اسے قبول کرنا  اور اگر كتاب الله كے مخالف ہو تو اسے رد كردينا ۔يہ حديث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہو، اسے کتاب الله  کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے، چنانچہ اگر حديث خود حجت ہوتى تو اپنے ثبوت كے ليے كسى دوسرى چيز كى محتاج نہ ہوتى ۔

احادیث کے راوی بشر ہیں اور بشر خطا سے محفوظ نہیں!

احادیث کو راویت کرنے والے راوی بشر ہیں، اوریہ ایک معلوم بات ہے کہ بشر خطا سے مبرانہیں ہوتا تو پھر ذخیرہ حدیث پر اعتماد کیسا!۔ یہ اللہ تعالٰی کا بنایاہواقانون ہے کہ بشر اپنی زندگی سے متعلق امور کو خود ہی انجام دیتے ہیں نہ کہ ان کے امور فرشتے یا کوئی اور مخلوق انجام دیتی ہےتواس طرح بشر کے ذریعہ احادیث کی روایت کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی احادیث کی صحت پر کوئی داغ ہےکیونکہ بشریت اپنے آپ میں نقص نہیں ہے بلکہ یہ کمال اور نقص ہرانسان کے اپنے کئے پرمنحصر ہے۔

حديث كے مشہور راوى” امام زہری” خود سے احاديث گھڑليا كرتے تھے!

امام زہری پر احاديث گھڑنے کی تہمت لگائی گئی ہے!۔ مشہور مستشرق (Orientilist) گولڈزیہر لکھتا ہے : عبد الملک بن مروان نے ابن الزبیر کے فتنے میں لوگوں کو حج کرنے سے روکا۔ اور اس نے مسجد اقصیٰ میں گنبدصخرہ بنایا تاکہ لوگ اس کی زیارت(حج) کریں اور کعبہ کے بجائے اس کا طواف کریں، پھر اس نے لوگوں کو مذہبی عقیدے کے ساتھ اس کی زیارت (حج) کروانا چاہا۔چنانچہ اس نے امام زہری کو پایا، جو ملت اسلامیہ میں مشہور تھے، اور احادیث گھڑنے کے لیے تیار تھے، تو  امام زہری نے حدیثیں گھڑ لیں۔