كيا اسلام میں حد رجم (سنگ سار كرنا) مشكوك ہے؟
بعض حضرات كہتے ہیں کہ حد رجم مشكوك ہے کیوں کہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آنحضرت ﷺ نے رجم کا حكم سوره نور كی آیت کے نزول سے پہلے دیا یا بعد میں:
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ( سورۃ النور:2 )
ترجمہ: جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے، سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔
شادی شدہ زانی کے لیےرجم کی سزا (سنگ سارى ’’پتھراؤ‘‘) قرآن کریم میں موجود نہیں!
شادی شدہ زانی کے لیےرجم کی سزا (حد رجم) قرآن کریم میں موجود نہیں، اور رسول اللہ ﷺ کا اپنے زمانے میں بعض مجرموں کے لیے رجم کا حکم دینا چند دیگر وجوہات کی بنا پر تھا: جيسے: ) اوباشی، قحبہ گری ’’جو کہ فسادفی الارض‘‘ کے زمرے میں آتی ہے)نہ کہ زنا کی سزا کے طور پر، اور زنا کی سزا وہی ہے جو سورہ نور میں ذکر ہےجوکہ سو کوڑے ہیں جس میں شادی شدہ یا غیر شادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں، اللہ تعالی فرماتا ہے: الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ….. ( نور:2 ) ترجمہ: جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔