مسلمانوں كو تو صرف (سنت ابراہیمى) كی اتباع كا حكم ديا گيا ہے۔
سنت، دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی ﷺ نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ دین کی حیثیت سے جاری فرمایاقرآن ميں آپ کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اللہ تعالى فرماتا ہے: (ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ). (سورة النحل:123).
سنت کی پیروی درحقيقت گمان کی پیروی ہے!
سنت خبر واحد ہوتى ہے ، اور خبر واحد كا ثبوت ظنى (گمان) ہے ، اور گمان کی پیروی ازروئے قرآن مجيدقابل مذمت ہے! قال الله تعالى: (إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا) (سورة النجم:28). ترجمہ : يہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور گمان حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا۔
سنت کی پیروی بندے كو شرک کی طرف لے جاتی ہے!
سنت کی پیروی بندے كو شرک کی طرف لے جاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ( إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ )
ترجمہ: بے شک فیصلہ كا حق صرف اللہ کے لیے ہے
سنت رسول ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نہیں ہے!
الله تعالى نے قرآن مجيد ميں اس بات كى اطاعت كا حكم ديا ہے جو اس كى طرف سے نازل كرده ہو، اور اسى كا نام وحى الہٰى ہے، جو كہ صرف قرآن مجيد ہے. ہر مسلمان كو جانا چاہيے كہ سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم چاہے وه افعال ہوں يا اقوال يہ وحى الہى كى دو قسموں ميں سے دوسرى قسم ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كى گئى، اور وحى كى پہلی قسم يقينا قرآن كريم ہے.
رسول اللہ ﷺ کی احادیث صرف اپنے زمانے تک محدود ہیں!
مخالفين کا دعویٰ ہے کہ سنت رسول ﷺ ايسى باتوں پر مشتمل ہے جو ہر زمانے كے ليے قابل عمل نہیں، کیونکہ يہ وہ احکام ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے اس وقت کے حالات کے مطابق جاری کیے جو صرف اس زمانے کے مطابق تھے ۔
نبی کریم ﷺ نے سیدنا جابر کو کنواری سے شادی کی ترغیب دلائی!
حدیث میں ہے کہ جابر بن عبداللہ نے جب ثیبہ عورت سے شادی کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آپ نے کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہ کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔ (صحیح بخاری : 5079) حالانکہ آپﷺ تو بیواؤں کا سہارا تھے تو پھر کنواری سے شادی کی بات کیوں ؟