اس شبہ كى اصل وجہ حدیث کا غلط فہم ہے، اس حدیث میں دو الفاظ ایسے ہیں جن کا غلط معنیٰ سمجھا گیا ہے، ایک لفظ ’’أقاتل‘‘اور دوسرا لفظ ’’الناس‘‘ہے۔ یہ سمجھنا کے’’أقاتل‘‘کا معنی محض قتل کرنا ہے یہ غلط فہمی ہےکیونکہ عربی زبان میں اس صیغہ کا استعمال اس صورت میں ہوتا ہے جب لڑائی دونوں جانب سے ہو۔۔