
ابو ہریرہ رضى الله عنہ كے پاس كثير احاديث كيسے؟
وضاحتِ شبہ:
ابوہریرہ سے جو احادیث مروی ہیں وہ دیگر صحابہ سے مروی نہیں حالانکہ سیدنا ابوہریرہ اسلام بھی بہت بعد میں لائے ۔ ان کی کل مرویات كى تعداد پانچ ہزار سے زائد ذكر كى گئی ہیں ، جو خلفاء اربعہ و دیگر صحابہ کی مرویات سے کئی گنا زیادہ ہیں۔
جواب شبہ
پہلى بات:
سب سے پہلے اگر ہم ریاضی كا استعمال کریں، تو ہم پر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ مسئلہ آسان ہے۔
اس کی وضاحت یوں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تین سال کی يقينى صحبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كى زندگی كے (۱۰۵۰) دن بنتے ہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر وقت رہتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں بھی جاتے ، سفر کرتے، آپ ان كے ساتھ ہوتے، دن کا بیشتر حصہ سيدنا ابوہریرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزارتے، جیسا کہ انہوں نے اپنے بارے میں خود فرمایا. ديكھیں: صحيح البخارى (2047)، صحيح مسلم (2492). تو ہم ان كى نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روزانہ کتنی احادیث سننے کی امید رکھتے ہیں؟
روزانہ صرف پانچ احادیث بہی اگر ہوں تو عدد 5 ہزار سے بڑھ جاتى ہے ، اور یہاں احادیث سے ہماری مراد پانچ حالتیں ہیں، يعنى حدیث بات ہو سکتی ہے،عمل ہو سکتی ہے، يا کوئی عمل یا قول جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے سامنے کیا گیا ہو یا آپ تک پہنچایا گیا ہو، اس سب كو حديث كہا جاتا ہے، پھر يہ تعداد وه ہے جو ذخيره حديث سے ہم تک پہنچی، بعض روايات صحيح ہیں، بعض حسن درجہ كى ہیں، اور بعض ضعيف، چنانچہ يہ تعداد تمام اقسام حديث كو شامل كيے ہوے ہے.
تو كيا روزانہ كسى كے بارے ميں صرف تين چار باتيں نوٹ كرنا بہت زياده سمجها جاتا ہے؟
دوسرى بات:
سیدنا ابوہریر ہ اکیلے ہی کثرت سے روایات بیان نہیں کرتے بلکہ وه صحابہ جنہوں نے احاديث كو كثرت سے روايت كيا ان میں دیگر صحابہ كرام بھی شمار ہوتے ہیں جن میں انس بن مالک ، عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن زبیر ، ابو سعید خدری ، رافع بن خدیج ، براء بن عازب رضی اللہ عنہم وغيره کا شمار ہوتا ہے۔ ان تمام صحابہ کا شمار صغار صحابہ میں ہوتا ہے اور ان کی روایات کبار صحابہ کی بنسبت کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن صرف سیدنا ابوہریرہ کا کثرت سے روایات بیان کرنا قابل اعتراض ہو اور باقی كا نہ ہو یہ بڑی عجیب بات ہے۔
تيسرى بات:
اس بات کو یوں بھی سمجھیے کہ تفسیری روایات میں سیدنا عبداللہ بن عباس کی روایات سب سے زیادہ ہیں ، باوجود اس کے کہ ان سے عمر ميں کافی بڑے اور زیادہ عرصہ رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہنے والے اور یقیناً قرآ ن مجيد کی تفسیر میں رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرنے والے صحابہ کی روایات ابن عباس کی بنسبت بہت کم ہیں ۔ دیگر صحابہ سے مرویات کا کم ہونا سیدنا عبداللہ بن عباس کی روایات کے لیے طعن کا باعث كس طرح سے بن سکتا ہے؟ ۔
چوتھی بات:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو کثرت سے روایات بیان کی ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سیدنا ابوہریرہ نے بڑے اہتمام سے ان احادیث کو یاد کیا اور اس کے لیے تگ و دہ کی جو دوسرے صحابہ کی بنسبت زیادہ تھی جس کا تذکرہ انہوں نے خود یوں کیا :
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں تین سال رہا ہوں ، اپنی پوری عمر میں مجھے حدیث یاد کرنے کا اتنا شوق کبھی نہیں ہوا جتنا ان تین سالوں میں تھا۔ ( صحيح البخارى:3591 )
دوسری وجہ سیدنا ابوہریرہ اپنےکثرت سے روایات بیان کرنے کی یوں بیان کرتے ہیں :
’’ اگر مجھے قرآن مجید کی دوآیات کے مصداق وعید بننے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں نبی کریم سے سنی ہوئی ہر بات روایت نہ کرتا۔وہ دو آیات یہ ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُوْلَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ، إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( البقرہ:159 )
ترجمہ: بےشک وہ لوگ جو چھپاتے ہیں ان دلائل اور ہدایت کی باتوں کو جو ہم نے نازل کیں بعد اسکے کہ ہم نے انہیں بیان کردیا ہے لوگوں کیلئے کتاب میں ان لوگوں پر لعنت ہے اللہ تعالی اور لعنت کرنے والوں کی۔ہاں وہ لوگ جو توبہ کرلیں اپنے عمل کو درست کرلیں اور بیان کردیں تو میں انکی توبہ قبول کرلوں گا اور میں بہت توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہوں۔
مسند احمد اور ترمذی ميں عبد الله بن عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ ہم سے زياده نبى صلى الله عليہ وسلم كى كے ساتھ رہتے اور آپ كو ہم سے زياده احاديث ياد ہیں.
حافظ ذ ہبى فرماتے ہیں: ابو ہریرہ مضبوط ترين حافظے كے مالک تھے، اور ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے كسى حدیث میں غلطی کی ہو۔ سير أعلام النبلاء (2/621).
پانچوىں بات:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ کم و بیش چار سال رہے اور وہ بھی آپ صلى الله عليہ وسلم كى زندگى كے آخرى سال ۔ تحصیل علم کے لیے یہ کوئی معمولی دورانیہ نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نبى صلى الله عليہ وسلم كے ساتھ مدت صحبت کے بارے میں فرمایا:
"آپ سن سات ہجرى میں خیبر میں تشریف لائے، اور خیبر صفر کے مہينہ میں تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات گیارہویں سال ربیع الاول میں ہوئی، تو یہ مدت چار سال اور اس سے زیادہ ہوگئ”۔ فتح البارى (6/608).
ساتھ میں سیدنا ابوہریرہ کو حفظ كے حوالے سے نبى صلى الله علیہ وسلم كى خصوصی دعائیں بھی ملیں اور سیدنا ابوہریرہ نے اس کے اثرات بھی دیکھے ، چنانچہ خود بيان كرتے ہیں کہ ايک دفع میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت باتیں سنتا ہوں، مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے اپنی چادر پھیلائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چلو بنائی اور ( میری چادر میں ڈال دی ) فرمایا کہ ( چادر کو ) لپیٹ لو۔ میں نے چادر کو ( اپنے بدن پر ) لپیٹ لیا، پھر ( اس کے بعد ) میں کوئی چیز نہیں بھولا۔ اور ديكھیں: صحيح البخارى (99).
چھٹی بات:
ابو ہريرہ رضى الله عنہ كى كثرت روايت كاخلفاء راشدین کے ساتھ تقابل بھی کم علمی پر مشتمل ہے کیونکہ یہ معلوم ہونا کہ وہ مختلف اوقات میں خلیفہ رہے ہیں۔ فی نفسہ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس کی مصروفیت کے باعث کسی اور کام کے لیے وقت نہیں بچتا۔