ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے شکم سیری کے لیے احادیث جمع کیں۔

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے شکم سیری کے لیے احادیث جمع کیں۔

وضاحتِ شبہ:
ایک حدیث میں ہےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے دروازے کے باہر حدیث کے حصول کے لیے  پڑا رہتا بسا اوقات بھوک کے مارے میری حالت متغیر ہوجاتی ۔(صحیح بخاری : 2047).
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے  کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کی رفاقت صرف شکم سیری کے لیے اختیار کی تھی  ، دینی مقصد نہ تھا۔ والعیاذ باللہ
جوابِ شبہ

 

پہلی بات :
تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ  پر ہجرت سے پہلے مسلمان ہوئے ۔ کیا اس وقت اہل اسلام کی حالت ایسی تھی کہ کوئی اس لیے اسلام قبول کرے کہ مالی نفع حاصل ہو؟۔
طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ جب اسلام قبول کرکے اپنی قوم کی طرف دعوت دینے گئے تو صرف ان کے والد اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ (الاصابۃ لابن حجر : ترجمہ طفیل بن عمرو الدوسی  5/405)
 اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسلام تو طفیل بن عمرو کی رضی اللہ عنہ دعوت پر قبول کرلیا تھا پھر کئی سالوں بعد غزوہ خیبر کے موقع پر آئے۔ تو جس دور میں اسلام قبول کیا یہ دور اسلا م کے معاشی طور پر تنگى كا دور تھا ،لہذا اس کٹھن دور میں ہی اسلام سے وابستہ ہوجانا سیدنا ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس طعن کی  حقیقت کو واضح کردیتا ہے۔  

دوسری بات  :
معترضین  نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول سے یہ  بات نکالی،  ا س قول کا عربی متن یہ ہے:

وَكُنْتُ امْرَأً مِسْكِينًا أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي فَأَحْضُرُ حِينَ يَغِيبُونَ وَأَعِي حِينَ يَنْسَوْنَ   ( صحیح بخاری:2047 )

ترجمہ:  جبکہ میں ایک قلاش آدمی تھا، پیٹ بھر جاتا تو ہروقت رسول اللہ ﷺ کے پاس رہتا تھا۔ جب یہ لوگ غائب ہوتے تو میں وہاں موجود رہتا اور جب وہ بھول جاتے تو میں یادرکھتا تھا۔

اس عبارت میں’’ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي‘‘ کا غلط مفہوم لیا گیا جبکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں صرف کھانے پینے کی ضروری اشیاء پر اکتفاء کرتا  اس سے بڑھ کر جمع  نہ کرتا اور نہ ہی میں مال کا ذخیرہ کرتا۔  صحیح بخاری ہی میں ایک جگہ ’’ بِشِبَعِ بَطْنِهِ‘‘ (صحیح البخاری 118 )کے الفاظ مستعمل ہیں۔  بلکہ ایک اور جگہ مزید وضاحت ہے وہاں الفاظ ہیں:

 وَإِنِّي كُنْتُ أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِبَعِ بَطْنِي حَتَّى لاَ آكُلُ الخَمِيرَ وَلاَ أَلْبَسُ الحَبِيرَ، وَلاَ يَخْدُمُنِي فُلاَنٌ وَلاَ فُلاَنَةُ، وَكُنْتُ أُلْصِقُ بَطْنِي بِالحَصْبَاءِ مِنَ الجُوعِ    ( صحیح بخاری : 3708  نیز 5432 )

ترجمہ: میں اپنا پیٹ بھرنے پر اکتفاء کرتے ہوئے ہر وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہتا تھا، نہ تو میں خمیری روٹی کھاتا اور نہ عمدہ لباس پہنتا، نہ میری خدمت کے لیے فلاں مرد اور فلاں عورت ہوتے ۔ میں بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیاکرتا۔

حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے ’’ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي ‘‘  کا مفہوم یوں بیان کیا ہے:

مُقْتَنِعًا بِالْقُوتِ أَيْ فَلَمْ تَكُنْ لَهُ غَيْبَةٌ عَنْهُ  ( فتح الباري:4/289 )

ترجمہ: صرف اپنی  بنيادى غذا پر اکتفاء کرتے  مبادا رسول کریم ﷺ سے دور نہ ہوجاؤں۔

امام نووی فرماتے ہیں :

أَيْ: أُلَازِمُهُ وَأَقنَعُ بِقُوتِي وَلَا أَجْمَعُ مَالًا لِذَخِيرَةٍ وَلَا غَيْرِهَا وَلَا أَزِيدُ عَلَى قُوتِي وَالْمُرَادُ مِنْ حَيْثُ حَصَلَ الْقُوتُ مِنَ الْوُجُوهِ الْمُبَاحَةِ وَلَيْسَ هُوَ مِنَ الْخِدْمَةِ بِالْأُجْرَةِ   (شرح صحيح مسلم: 2492  )

ترجمہ: میں  رسول کریم ﷺ کے ساتھ رہتا ، او ر اپنی غذا پر اکتفا کرتا باقی مال ذخیرہ اندوزی کے لیے یا کسی اور سبب سے جمع نہ کرتا  ، اپنی غذا کی ضرورت سے زیادہ کوشش نہ کرتا ۔ یعنی جب دن کی غذا کا جائز طریقے سے  بندوبست ہوجاتا (تو باقی وقت صرف حصول حدیث کے لیے وقف ہوتا) لہذا اجرت کے لیے خدمت کرنے کے زمرے میں نہیں ہے۔


علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اسی واقعے  سے مسائل کا استنباط کرتے ہوئے ایک یہ مسئلہ بھی اخذ کرتے ہیں  :

مِنهَا مُلَازَمَةُ الْعُلَمَاءِ وَالرِّضَا بِالْيَسِيرِ لِلرَّغْبَةِ فِي الْعِلْمِ، وَمِنهَا الْإِيثَارُ لِلْعِلْمِ عَلَى الِاشْتِغَالِ بِالدُّنيَا وَكَسْبِهَا    ( جامع بیان العلم و فضلہ : 1/409 )

ترجمہ: اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل علم  کے ساتھ رہا جائے اور  حصول علم کی غرض سے تھوڑا مل جانے پر بھی راضی رہنا  اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیاوی امور اور کاروبار میں مشغول ہونے پر علم کو ترجیح دینا۔

بہرحال ان اقوال سے بھی معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مقصود کیا ہے اور اس سے کیا مفہوم نکالا جا رہا ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مقصد تو یہ  ہے  کہ میری مشغولیت دنیا میں  صرف پیٹ بھرنے کی حد تک ہوئی باقی اصل مشن تو  ایک  ہی مشن تھا کہ احادیث رسول اللہ ﷺ کو محفوظ کرلوں۔
اور اس عظیم مشن کے لیے کبھی پیٹ نہ بھرتا توحالت متغیر ہوجاتی مگر کبھی اس عظیم مشن کو نہ چھوڑا۔  

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے