ابوہريرہ رضی اللہ عنہ بہت زیادہ مزاح کرتے تھے

ابوہريرہ رضی اللہ عنہ بہت زیادہ مزاح کرتے تھے

وضاحتِ شبہ:
ابوہريرہ رضی اللہ عنہ بہت زیادہ مزاح کرتے تھے، جبكہ زيادہ مزاح كرنا عدالت کو متاثر کرتا ہے، اور یہ مروءت (عمدہ شخصيت) کے خلاف سمجھا جاتا ہے ۔
جوابِ شبہ

پہلی بات:
سیدنا ابوہريرہ کو بہت زیادہ مذاق کرنے والا قرار دینا یہ بات سراسر جھوٹ اور حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ سیدنا ابوہريرہ کے حوالے سے اس موضوع پر کوئی ایک بھی صحیح روایت یا حوالہ موجود نہیں نہ ہی کسی مؤرخ نے اس قسم کی بات کہی۔  

بلکہ صحابہ كے حالات زندگى پر مشتمل جامع كتب جيسے "الاستيعاب” لابن عبد البر، اور ” الاصابہ” از حافظ ابن حجر  میں ايسا  كچھ بھی موجود نہیں، اور نا ہی معتبر تاريخى  كتب جيسے "البدايہ والنہايہ”  از حافظ ابن كثير ميں ايسا کچھ موجود ہے .

 بلكہ ” الاصابہ” (13/56)    میں ہے کہ ایک شخص سیدنا ابوہريرہ کے پاس آیا اور کہا میں  روزے دار تھا  ، میں اپنے والد کے پاس گیا وہ کچھ کھارہے تھے انہوں نے مجھے دیا  میں نے وه (  بھول کر ) کھاگیا ۔ سیدنا ابوہريرہ نے کہا : آپ کو اللہ تعالیٰ نے کھلایا ۔  پھراس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ  میں کسی کے پاس گیا وہ بکریوں کا دودھ دوھ رہا تھا  اس نے مجھے دودھ دیا تو میں نے پی لیا سیدنا ابوہريرہ نے  فرمایا : آپ کو اللہ نے پلایا۔  پھر اس نےمزید بتایا کہ میں گھر جاکر سوگیا اور تھوڑی دیر بعد جب اٹھا تو میں نے پانی پی لیا ۔ سیدنا ابوہريرہ نے فرمایا: لگتا ہے تم روزے کے عادی نہیں ہو۔

اس پورے واقعے میں دیکھا جائے  تو اس نوجوان کی طرف سے مسلسل یہ بھول جانا کہ وہ روزے سے ہے کسی لطیفے سے کم نہیں ، لیکن جواب میں سیدنا ابوہريرہ نے اس کا مذاق نہیں  بنايا  اور بڑے  ہی اچھے انداز سے یہ کہتے رہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کھلایا پلایا ہے اور آخر میں بڑے اچھے انداز سے یہ نصیحت  کی کہ تم روزے کے عادی نہیں یعنی اگر عادی ہوتے تو یوں بار بار نہ بھولتے ۔

 اسی عمدہ انداز کی طرف  حافظ ابن حجر نے بھی واقعہ بیان کرنے کے بعد اشارہ کیا ہے۔

دوسری بات:
  دين ميں مزاح کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں :

  • مزاح کرنے والا فحش گو ہو اور لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہو ، سیدنا ابوہريرہ کے بارے میں ایسا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔  
  •   مزاح کرنے والا خوش دلی کے لیے مزاح کر  ےجس کا مقصد کسی کو تکلیف دینا نا ہو  بلکہ  مسرت بخش  اور فرحت کا سامان  مہیا كرنا ہو ایسا مزاح خوش طبعی کی علامت سمجھا جاتا ہے جسے اچھی صفات  میں شمار کیا جاتا ہے اس قسم کے مزاح کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی یہ کسی كى اخلاقیات پر قدغن کا باعث ہوتا ہے ۔  

امام نووی فرماتے ہیں: شریعت نے جس مذاق سے روکا ہے وہ یہ ہے کہ کثرت سے مذاق کیا جائے،  اس سے بہت زیادہ ہنسنے کی عادت پڑجاتی ہے اور دل سخت اور اللہ کے ذکر  و دیگر اہم  دينى امور سے غافل  ہوجاتا ہے ، اور تکلیف کا باعث بنتا ہے، اور  اس سے  انسان كا رعب اور وقار ختم ہوجاتا ہے۔ البتہ جو  مزاح  ان امور سے پاک ہو وہ مباح ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا مزاح کیا ہے،  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم بہت  کم مزاح کرتے تھے وہ بھی کسی مصلحت  یا خوش طبعی کے لیے ایسا کرتے تھے اور یہ ممنوع نہیں بلکہ یہ سنتِ مستحبہ ہے ۔ (کتاب الاذکار للنووی  ص326)

تیسری بات:
گذشتہ نکتہ میں بیان کردہ مزاح کی دوسری قسم   جس طرح سنجیدگی ، وقار اور عدالت کے خلاف نہیں اسی طرح شریعت کے بھی خلاف نہیں بلکہ اس قسم کا  مزاح شرعاً جائز  ہے۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے