آدم علیہ السلام کے بیٹے کو قیامت تک کے قتلوں کا گناہ ملنا

آدم علیہ السلام کے بیٹے کو قیامت تک کے قتلوں کا گناہ ملنا

وضاحتِ شبہ:
بعض معترضین کا کہنا ہے کہ حدیث میں ہے: لاَ تُقْتَل نَفْسٌ إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْهَا ( صحیح البخاری:6867 )

ترجمہ:قیامت تک ہونے والے قتل کا گناہ آدم کے پہلے بیٹے کوبھی ملتا رہے گا کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کیا۔ جبکہ قرآن کریم میں ہے کہ: وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ( الاسراء:15 ) ترجمہ: کوئی نفس کسی نفس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ نیزیہ حدیث اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کے بھی منافی معلوم ہوتی ہے۔
جوابِ شبہ

 

پہلی بات:
صحيح حديث اور قرآن کریم  میں بالكل  کوئی تعارض نہیں، بلكہ قرآن کریم میں بھی اس قسم کا بیان موجود ہے ۔

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالا مَعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ    ( العنکبوت:12،13 )

ترجمہ : اور جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ  ہمارے طریقوں پر چلو ہم تمہارے گناہ اپنے سر لیں گے، حالانکہ وہ ان کے گناہوں کا کچھ بھی بوجھ اٹھانے والے نہیں  کچھ شک نہیں کہ یہ جھوٹے ہیں۔ اور یہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے لوگوں کے بوجھ بھی اور جو بہتان یہ باندھتے رہے قیامت کے دن ان سے ان کی ضرور پوچھ ہوگی۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہے :

 لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَزِرُوْنَ   ( النحل:25 )

ترجمہ:  اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ان کو بکنے دو یہ قیامت کے دن اپنے اعمال کے پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے،  سن لو! برا ہے جو بوجھ وہ اٹھا رہے ہی۔

ان آیات کی روشنی میں واضح ہوا کہ گمراہوں کے ليڈران كو دوگنا عذاب دیا جائے گا ایک ان کی اپنی گمراہی کی سزا اور دوسری لوگوں کو گمراہ کرنے کی ۔

دوسری بات:
حدیث میں یہ  وضاحت  بھی  ہے کہ آدم عليہ السلام كے قاتل بيٹے كے گناہ كا جارى رہنا بلا وجہ ناحق نہیں بلكہ اس لیے ہے کہ اس نے سب سے پہلے قتل کیا۔

 لہذا اہل علم نے قرآن وحديث كو سامنے ركھتے ہوے یہ اصول قائم کیا ہے کہ کوئی بھی برا کام جو ایجاد کرے گا وہ بعد میں اس کے كرنے والوں کے لئے بھی سبب بنے گا اسى ليے گناه كا مستحق ٹھرے گا۔

تیسری بات:
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ اصول صرف گناہ  کی حد تک محدود نہیں بلکہ نیکی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے چنانچہ حدیث میں ہے  :  

مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ  ( صحیح مسلم:1893 )

ترجمہ: جو کسی کی نیکی کے معاملے میں رہنمائی کرے اس کے لیے اس نيكى كرنے والے کے برابر اجر ہے۔

 ایک اور حدیث میں ہے :

مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ  ( صحیح مسلم:1017 )

ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا تو اس کے لیے اس کا  اپنا بھی) اجر ہے اور ان کے جیسا اجر بھی جنھوں نے اس کے بعد اس (طریقے) پر عمل کیا اس کے بغیر کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو اور جس نے اسلا م میں کسی برے طریقے کی ابتدا کی اس کا بوجھ اسی پر ہے اور ان کا بوجھ بھی جنھوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا اس کے بغیر کہ ان کے بو جھ میں کوئی کمی ہو۔

ان احادیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ اصول صرف گناہ کے بارے میں نہیں بلکہ نیکی کے بارے میں بھی ہے۔

چوتھی بات:
نیکی اور گناہ کے حوالے سے سب سے پہلے یوں راغب کرنے والے کو بھی ثواب يا گناہ  میں حصہ دار قرار دینا ظلم نہیں بلکہ عین عدل ہے۔

عقل بھی یہی کہتی  ہے کہ ایک شخص دوسروں کو گمراہ کرتا پھرے اور گناہوں کے دلدل میں جھونکتا رہے اور پھنسنے والے اس کو کوستے ہوں کہ اس کے وسوسے ، ترغیب نے اس گناہ تک پہنچایا ہے تو اگر اس کے لیے یہ وعید نہ بیان کی جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ خود گناہ نہ کریں البتہ دوسروں کو گناہ میں مبتلا کرنے میں کوئی حرج نہیں !

یہی معاملہ نیکی کا بھی ہے ایک شخص نے خیر کے کام میں کسی کی مدد کی ہے ، رہنمائی کی ہے یا توجہ دلائی ہے لیکن اسے کوئی اجر نہ ملے ، یوں توجہ دلانے والے تو ختم ہوجائیں گے۔

مزید یہ کہ دنیا میں بھی کسی گناہ میں شریک یا گناہ کے لیے تیار کرنے والے اکسانے والے کو بھی مجرم سمجھا جاتا ہے اسی طرح خیر کے کاموں میں تعاون کرنے والوں کو دنیا میں بھی سراہا جاتا ہے مثلا مجرم کو پکڑنا پولیس کا کام ہے لیکن مجرم تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہونے والے شخص کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔

یہ تمام حقائق بتلاتے ہیں کہ نیکی و گناہ کے معاملے میں یہ اصول عدل پر قائم ہے اور اس میں کوئی ظلم و زیادتی کا پہلو نہیں ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ حدیث قرآن کریم کے خلاف نہیں۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے