احادیث کے راوی بشر ہیں اور بشر خطا سے محفوظ نہیں!

احادیث کے راوی بشر ہیں اور بشر خطا سے محفوظ نہیں!

وضاحت ِشبہ: 
احادیث کو راویت کرنے والے راوی بشر ہیں، اوریہ ایک معلوم بات ہے کہ بشر خطا سے مبرانہیں ہوتا تو پھر ذخیرہ حدیث پر اعتماد کیسا!۔
جوابِ شبہ:

 

پہلى بات:
یہ اللہ تعالٰی کا بنایاہواقانون ہے کہ بشر اپنی زندگی سے متعلق امور کو خود ہی انجام دیتے ہیں نہ کہ ان کے امور فرشتے یا کوئی اور مخلوق انجام دیتی ہےتواس طرح بشر کے ذریعہ احادیث کی روایت کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی احادیث کی صحت پر کوئی داغ ہےکیونکہ بشریت اپنے آپ میں نقص نہیں ہے بلکہ یہ کمال اور نقص ہرانسان کے اپنے کئے پرمنحصر ہے۔

دوسرى بات:
 جرح وتعدیل کے علم کی ابتداہی اس لئے ہوئی کہ شرائط وضوابط طےکیے جائیں کہ کس راوی کی روایت قبول ہوگی اور کس کی نہیں۔ جرح کا معنی یہ ہے کہ کسی راوی کا ایسا وصف بیان کرنااس کی امانت یا  حافظے کے بارے میں جس سے اس کی روایت کو رد کردیا جائے۔
تعدیل کا معنی یہ ہے کہ کسی راوی کا ایسا وصف بیان کرنااس کی امانت یا  حافظے کے بارے میں جس سے اس کی  روایت کو قبول کرلیا جائے۔
تواس  سے پتہ چلتا ہے کہ ہر کسی سے روایت نہیں لی جاتی بلکہ صرف اس راوی کی روایت ہی قابل قبول ہے جس کی امانت وديانت اور حافظے میں كمزورى  نہ ہو ۔

تیسرى  بات:
اگر احادیث کے راویوں کا بشر ہونا اس کی ثقاہت میں خلل کا باعث ہے تو دنیا کا ہر علم ناقابل اعتماد ٹھہرے گا کیونکہ ہر علم ہی بشر سے نقل ہوا ہے تو ایسے نہ تاریخ محفوظ رہی اور نہ ہی لغت اور نہ کوئی اور علم !۔

چوتھى بات:
یہ بات مسلّم ہے کہ قرآن مجید محفوظ کتاب ہےجس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالٰی نے لیا۔ لیکن اس کی حفاظت کا بندوبست بھی اللہ رب العزت نے ان ہی بشر کے ذریعہ فرمایا جن کو احادیث روایت کرنے پر ان کی بشریت کی وجہ سے(مذکورہ اعتراض میں) ملامت کیا جارہا ہے!۔

پانچوىں بات:
مذکورہ شبہ کوئی نیا نہیں !بلکہ پچھلی قوموں نےجب اللہ کے بھیجے گئے رسولوں کو جھٹلایا تو ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ تو ہماری طرح کے بشر ہیں ہم ان کی بات پر کیسے بھروسہ کرلیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ   ( ابراهيم: 10-11 )

ترجمہ: ان کے رسولوں نے انھیں کہا کہ کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے وہ تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے تمام گناہ معاف فرما دے اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، انہوں نے کہا تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو  تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ کرتے رہے ہیں  اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو  ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے  اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزہ تمہیں لا دکھائیں  اور ایمانداروں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

رسولوں نے اشکال کا جواب یہ دیا کہ یقیناً ہم تمہارے جیسے بشر ہیں۔ لیکن تمہارا یہ سمجھنا غلط ہے کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا،جیسے یہاں معترضین کو بشر کی روایت پراعتراض ہے ۔توجیسے اللہ تعالٰی انسانوں کی ہدایت کے لئے انسانوں میں سے ہی بعض انسانوں کو وحی ورسالت کے لئے چن لیا ویسےہی اللہ نے انسانوں میں سے بعض کو اپنے نبی کی سنت کی خدمت کے لیے چنا۔
حاصل يہ كے احاديث نبوى ہر ايرے غيرے كے ذريعہ سے ہم تک نہیں پہنچیں بلكہ بشر (راويان حديث) كى بات كى جس حد تک جانچ پڑتال كرنا ممكن تھا حضرات محدثين نے حديث كے راويوں كے بارے ميں ايسا ہی كيا اور نتيجہ سامنے ہے كہ احاديث كى ضعيف اور صحيح كى تقسيم موجود ہے اور اس كا اكثر دارومدار حديث كے راويوں كے  حافظے كےمختلف حالات  ہیں۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے