
احاديث راويوں كى ذاتى فہم اور سوچ كے حساب سے مرتب كى گئی ہيں!
وضاحتِ شبہ: احاديث تاخیر سے جمع کی گئی ہیں، چنانچہ ان کے الفاظ عہد نبوى سے دورى اور طوالت کی وجہ سے ضائع ہوچکے تھے، احادیث جمع کرنے والے حدیث کو الفاظ کے ساتھ نہيں بلكہ ان کے معنی کے ساتھ لکھتے تھے ، الفاظ راویوں کے اپنے ہوتے تھے، چنانچہ حديث دراصل ان آدمیوں کے اقوال كا نام ہے جو غلطیوں سے پاک نہیں ۔
جوابِ شبہ
پہلى بات:
مذكوره دعوى درست نہيں كيونكہ احاديث الفاظ ومعنى دونوں كے ساتھ مروی ہيں كيونكہ حديث كو روايت كرنے والے سب سےپہلےلوگ صحابہ كرام اور تابعين ہيں جن كی الله رب العزت نےتعريف فرمائی ہے:
والسابقون الأولون من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان رضي الله عنهم ورضوا عنه وأعد لهم جنات تجري تحتها الأنهار خالدين فيها أبدا ذلك الفوز العظيم ( التوبة:100 )
ترجمہ: اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
کيونكہ الفاظ كے ردوبدل سے معنى كا ردو بدل لازم آتا ہے تو كيا صحابہ كرام سے اس بات كی توقع جاسكتی ہے كہ وه نبى ﷺ كی طرف وه منسوب كريں جو انهوں نے نہیں فرمایا جبکہ انهوں نے نبی ﷺ سےیہ سن ركھا ہو:
من كذب علي متعمداً فليتبوأ مقعده من النار ( صحيح بخارى:1291 )
ترجمہ: جو شخص بھی جان بوجھ کر میرے اوپر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
دوسرى بات:
نبى ﷺسے خود الفاظ كا خيال رکھنے کی تعليم و ترغيب وارد ہے جيسا كہ حديث ميں آتا ہے :
وبنبيك الذي أرسلت، فإن مت من ليلتك فأنت على الفطرة، واجعلهن آخر ما تتكلم به) قال البراء: فرددتها على النبي ﷺ، فلما بلغت: آمنت بكتابك الذي أنزلت” قلت: ورسولك الذي أرسلت، فقال النبي ﷺ :لا، ونبيك الذي أرسلت ( صحيح بخارى:247 )
ترجمہ: …جو نبی تو نے بھیجا میں اس پر ایمان لایا۔ تو اگر اس حالت میں اسی رات مر گیا تو فطرت پر مرے گا اور اس دعا کو سب باتوں کے اخیر میں پڑھ۔ براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس دعا کو دوبارہ پڑھا۔ جب میں (اللهم آمنت بكتابك الذي أنزلت) پر پہنچا تو میں نے (ورسولك (کا لفظ کہہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں یوں کہو) ونبيك الذي أرسلت) ۔
اسى طرح حديث ميں تعريف كى گئی ہے اس كى جو حديث كو اسى طرح آگے پہنچائے جيسے اس نے سنا: (…فأدّاها كما سمعها…)(سنن ترمذى:2657) ترجمہ: ہوبہو دوسروں تک پہنچا دیا۔
تيسرى بات:
جہا ں تك حديث كو معنى ومفہوم كے ساتھ ذكر كرنے كا تعلق ہے تو وه بوقت ضرورت اور مخصوص شرائط كے ساتھ جائز قرار دی گئی ہے، جن ميں سے چند اہم شرائط يہ ہيں:
- حديث كو بيان كرنے والا عربى زبان سے اچھی طرح واقف ہو،اسے الفاظ كے معانی ومفاہيم پر مکمل دسترس ہو، اور جو بات بيان كر رہا ہے اس كےكہنے والے كہ مقاصد سے بھی آگاہ ہو ۔
- حديث كو معنى سے بيان كرنے كى ضرورت پيش آئے، اور اس وقت راوى كو الفاظ پورى طرح ياد نہ آرہے ہوں.
- حديث ايسے اذكار اور دعائوں پر مشتمل نہ ہو جن كے الفاظ كو پڑھنے كا شريعت نے حكم ديا ہو، كيونكہ بعض الفاظ كے ذريعہ الله تعالى كى عبادت كى جاتى ہے، تو ان ميں تبديلى كى بالكل گنجائش نہیں.
چوتھى بات:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا بہت بڑا حصہ بعینہ الفاظِ نبوی کے ساتھ منقول ہے۔ مثلا ً اذان و اقامت کے کلمات، اذکار و ادعیہ کے الفاظ اور احادیث ِقدسیہ،ان کے علاوہ اَحکام و اخلاق کے متعلق احادیث کا ايك بڑا حصہ فعلی احاديث ( یعنی آپ ﷺكے افعال مباركہ) يا تقریری روایات پر مشتمل ہے، (تقریر کے معنی ہیں کہ آپ کے سامنے کوئی کام کیا گیا ہو اور اس پر آپ نے انکار نہ فرمایا ہو، یعنی آپ ﷺكے ساتھ يا آپ كے سامنے پيش آنے والے مختلف امور وواقعات كى احاديث۔
تو ايسى روايات كے الفاظ تو ويسے بھی صحابى رسول يا صاحب قصہ كى طرف سے ہوتے ہیں، جو وه اپنے مشاہدے سے بيان كرتے ہیں، اور اصل الفاظ تو موجود ہی نہیں ہوتے جن کی پابندی کی شرط لگائی جائے۔