
اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرنے والی احادیث قرآن کریم کے مخالف ہیں۔
وضاحتِ شبہ:
وہ احادیث جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان ہے ان میں تشبیہ اور تجسیم مذکور ہے اس لیے وہ قرآن کریم کی آیات سے متعارض ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الشوری:11 )
ترجمہ: اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
جوابِ شبہ
پہلى بات:
اس اعتراض کی بنیادی وجہ اللہ تعالی ٰ کی صفات کے حوالے سے اہل سنت کے عقائد سے ناواقفیت اور دیگر حق سے منحرف فرقوں کی آراء سے تعلق ہے ۔ کیونکہ یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اہل سنت اللہ تعالیٰ کی صفات کو تشبیہ سے پاک قرار دیتے ہوئے کما یلیق بجلالہ (جيسے اس كى شايان شان) قرار دیتے ہیں۔ اور صفات کے مطلب كى من مانی تاويل کے بجائے اس کے حقیقی معانی پر سمجهتے ہیں۔ صفات رب العالمين کے باب میں اہل سنت کے عقیدہ كو درج ذیل بنيادي اصولوں کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے:
پہلا اصول:
اللہ تعالیٰ کی صفات کے اثبات میں صرف قرآن مجيد اور مستند حديث پر اعتماد کیا جائے گا۔ قرآن وسنت میں جن صفات بارى تعالى کا ذكر موجود ہے انہیں بغیر کسی (تحریف، تکییف، تعطیل، تشبیہ) کے تسلیم کیا جائے گا ۔
"تحریف": اسماء وصفات کی نصوص یا ان کے معانی کو مراد الہی سے پھیر دینا.
"تعطیل": اللہ تعالى کے ناموں اور صفات یا ان میں سے بعض کی نفی کرنا، یا اللہ کی ذات کے ساتھ قیام صفات کا انکار کرنا.
"تکییف": الله تعالى كى کسی صفت کو ایک معین ہئیت دينا، يا اس كى كيفيت بيان كرنا جبكہ ہم نے اسے ديکھا نہیں.
"تشبيہ": اللہ کی صفات کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ مخلوقات کی صفات کی طرح ہیں، يا وہ صفاتِ مخلوق کے مشابہ ہیں.
اس اصول كى وضاحت میں اہل علم کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں۔
امام احمد فرماتے ہیں :
لا يوصف الله إلا بما وصف به نفسه أو وصفه به رسوله صلى الله عليه وسلم لا نتجاوز القرآن والسنة ( مجموع الفتاوی: 26/5 )
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کو انہی صفات کے ساتھ متصف کیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خود بیان کی ہیں یا رسول کریم ﷺ نے بیان کی ہیں ، اس باب میں ہم قرآن و سنت سے تجاوز نہیں کرسکتے ۔
امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں :
نَحْنُ نُثْبِتُ لِخَالِقِنَا جَلَّ وَعَلَا صِفَاتِهِ الَّتِي وَصَفَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا نَفْسَهُ فِي مُحْكَمِ تَنْزِيلِهِ، أَوْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا ثَبَتَ بِنَقْلِ الْعَدْلِ عَنِ الْعَدْلِ مَوْصُولًا إِلَيْهِ (كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب عز وجل لابن خزيمة: ص 57 )
ترجمہ: ہم اپنے خالق کے وہی صفات کا اثبات کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی واضح آیات میں خود بیان فرمائی ہیں یا جو نبی کریم ﷺ کی زبان سے ہم تک ثقہ عادل راویوں کی متصل سند کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں۔
امام ابو بکر الاسماعیلی فرماتے ہیں :
اعلموا -رحمنا الله وإياكم- أن مذهب أهل الحديث -أهل السنة والجماعة- الإقرار بالله وملائكته وكتبه ورسله، وقبول ما نطق به كتاب الله تعالى وما صحت به الرواية عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لا نعدل عما ورد به ولا سبيل إلى رده؛ إذ كانوا مأمورين باتباع الكتاب والسنة مضموناً لهم الهدى فيهما، مشهوداً لهم بأن نبيهم صلى الله عليه وسلم يهدي إلى صراط مستقيم، محذرين في مخالفته الفتنة والعذاب الأليم.ويعتقدون أن الله تعالى مدعو بأسمائه الحسنى، موصوف بصفاته التي سمى ووصف بها نفسه ووصفه بها نبيه صلى الله عليه وسلم ( اعتقاد اھل السنة : 31 ، 32 )
ترجمہ: جان لو کہ اہل الحدیث ، اھل السنہ والجماعۃ کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ، فرشتوں ، کتابوں اور رسولوں پر ایمان لانا اور قرآن کریم اور صحیح احادیث جو مذکور ہے اسے قبول کرنا ، احادیث میں جو کچھ وارد ہے اس سے اعراض نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی کوئی گنجائش ہے کیونکہ کتاب و سنت کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور وہ فتنے میں مبتلا ہونے اور عذاب الیم سے ڈرتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن کریم و احادیث میں اچھے اچھے نام مذکور ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ خود اپنی بیان کردہ یا نبی کریم ﷺ کی بیان کردہ صفات سے متصف ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومن الإيمان بالله: الإيمان بما وصف به نفسه في كتابه، وبما وصفه به رسوله محمد صلى الله عليه وسلم من غير تحريف، ولا تعطيل، ومن غير تكييف، ولا تمثيل ( العقيدة الواسطية، ص57)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے جو اپنے بارے میں قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے اور جو نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا ہے اسے بغیر کسی تحریف ، انکار ، کیفیت اور تمثیل کے تسلیم کرنا ایمان باللہ کا حصہ ہے۔
ایک مقام پر امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
وطريقة سلف الأمة وأئمتها أنهم يصفون الله بما وصف به نفسه، وبما وصفه به رسوله صلى الله عليه وسلم، من غير تحريف، ولا تعطيل، ولا تكييف، ولا تمثيل، إثبات بلا تمثيل، وتنزيه بلا تعطيل، إثبات الصفات ونفي مماثلة المخلوقات قال تعالى: {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ} فهذا رد على الممثلة {وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ} رد على المعطلة ( منھاج السنة النبویة: 2 /231 )
ترجمہ: امت کے سلف صالحین اور ائمہ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے ان صفات بغیر کسی تحریف ، تعطیل ، تکییف اور تمثیل کے اثبات کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کی ہیں یا رسول اللہ ﷺ نے بیان کی ہیں۔ قرآن کریم کی اس آیت ’’اللہ تعالیٰ کی جیسی کوئی شے نہیں ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے تمثیل دینے والوں کا رد کیا گیا ہے اور الے حصے میں ’’وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکرین کا رد موجود ہے۔
دوسرا اصول :
صفات الہی کو بیان کرنے والی نصوص کو ظاہر پر ہی سمجھا جائے گا ، اس میں کوئی ایسی تاویل ، تعطیل نہیں کی جائے گی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی مراد کے برخلاف ہو۔ ولید بن مسلم فرماتے ہیں میں نے امام اوزاعی ، امام سفیان ثوری ، امام مالک بن انس اور لیث بن سعد سے ان احادیث کی بابت سوال کیا جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان ہے تو ان تمام ائمہ کرام رحمھم اللہ نے فرمایا کہ انہیں بالکل اسی طرح تسلیم کرو جس طرح کہ وہ وارد ہیں۔ (شرح أصول اعتقاد اھل السنة لأبي القاسم اللالکائی ) اور جب اس طرح کا سوال ابن مبارک سے کیا گیا تو یہی جواب ابن مبارک، ابو زرعہ ودیگر سلف صالحین کا تھا۔ (ابطال التأویلات لاخبار الصفات للقاضی أبي یعلی : 1/ 43 ، 44 ، 253 )
تیسرا اصول:
اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے مشابہ قرار نہیں دیا جائے گا۔ امام ابو یعلی فرماتے ہیں:
وَالْوَاجِبُ حَمْلُهَا عَلَى ظَاهِرِهَا، وَأَنَّها صِفَاتٌ لِلَّهِ تَعَالَى لا تُشْبِهُ سَائِرَ الْمَوْصُوفِينَ بِها مِنَ الْخَلْقِ، وَلا نَعْتَقِدُ التَّشْبِيهَ فيها ( إبطال التأويلات لأخبار الصفات للقاضی أبي یعلی: 1/ 43 )
ترجمہ: ان صفات کو ان کے ظاہری معنی پر سمجھنا واجب ہے،اور يہ کہ یہ الله تعالى كى صفات ہیں جو مخلوق کى صفات كے مشابہ نہیں، اور نہ ہی ہم تشبیہ کا اعتقاد رکھتے ہیں۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أهل السنة والجماعة والحديث من أصحاب مالك والشافعي وأبي حنيفة وأحمد وغيرهم متفقون على تنزيه الله تعالى عن مماثلة الخلق، وعلى ذم المشبهة الذين يشبهون صفاته بصفات خلقه، ومتفقون على أن الله ليس كمثله شيء لا في ذاته ولا في صفاته ولا في أفعاله ( منھاج السنۃ النبویۃ:2/231 )
ترجمہ: اہل سنت جو کہ ائمہ اربعہ کے اصحاب ودیگر متفق ہیں: اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے ساتھ مماثلت دینے سے منزہ ماننے پر، اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کے مشابہ قرار دیتے ہیں ان کی مذمت پر، اور اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ جیسی کوئی شے نہیں، نہ ہی اس كى ذات میں اور نہ ہی صفات وافعال میں۔
چوتھا اصول:
صفات بارى تعالى كى کیفیت کو شریعت کے سپرد کردینا اور اس کى كيفيت كو جاننے کا حرص وشوق نہ رکھنا، اور اس کی تین وجوہات ہیں:
1۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن و سنت کے ذریعے ہمیں اپنی صفات بیان کی ہیں ان کی کیفیت بیان نہیں کی۔
2۔ جب ہمیں اللہ کی ذات کی کیفیت معلوم نہیں تو صفات کی کیفیت کیسے معلوم ہوسکتی ہے، کیونکہ كسى ذات کی کیفیت معلوم ہو تب ہی اس كى صفات کی کیفیت معلوم ہوگی۔
3۔کسی شے کی کیفیت جاننے کے تين طريقے ہوتے ہیں:
(أ) اس کے مشاہدہ (ب) اس جیسی كسى شے کا مشاہدہ (ج) اس کے بارے میں کسی سچے کی اطلاع۔ اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے حوالے سے ان طريقوں میں سے کوئى ممکن نہیں ۔
دوسرى بات:
صفات الہی کے ذکر کی وجہ سے اگر احادیث مباركہ پر طعن کیا گیا تو یہ اعتراض تو قرآن مجيد پر بھی کیا جاسکتا ہے، كيونکہ قرآن مجيد ميں رب تعالى كى بہت سى صفات مباركہ كا ذكر موجود ہے، جيسے صفت: رحمت، غضب، تشريف لانا، داياں ھاتھ، چہرہ، آنكھ، حياء، وديگر، چنانچہ صحیح منہج یہ ہے کہ قرآن و سنت میں مذکور باتوں کو مانا جائے ہے نہ کہ اسے قابل اعتراض بنانے کی کوشش کی جائے۔
تیسرى بات:
جن احادیث کو معترضین قابلِ اعتراض سمجھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی حدیث بھی قابل اعتراض نہیں جب ہم ان صفات کے بارے میں یہ عقیدہ بنالیں کہ ان صفات کو ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی مراد کے مطابق قبول کرتے ہیں ۔ جو بھی الفاظ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں استعمال ہوئے ہیں ان كو حقیقی معنی میں تسلیم کرتے ہوئے، ان صفات کی کیفیت جو ہمیں نہیں بتائی گئی تو اس بارے میں خاموشی اختیار کی جائے جیساکہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے دیکھنا، سننا، کلام، نزول، استواء، ہنسنا، غصہ، سمیت دیگر صفات کو حقیقی معنی میں تسلیم کرتے ہوئے مخلوق کے ساتھ تشبیہ و تمثیل کے بغیر اور کیفیت بیان کیے بغیر۔ جب یہ اساسی قاعدہ سمجھ آجائےگا تو نہ اعتراض کی کوئی گنجائش باقی رہے گی اور نہ قرآن کریم کی کسی آیت یا مستند حديث نبوى کو قابل اعتراض قرار دیا جائے گا۔