الله تعالیٰ نےصرف قرآن مجيد کی حفاظت کا ذمہ ليا ہے!

الله تعالیٰ نےصرف قرآن مجيد کی حفاظت کا ذمہ ليا ہے!

وضاحتِ شبہ:
الله تعالیٰ کا فرمان ہے : إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَوَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ( الحجر:9 )
ترجمہ: یقینا ہم نے ذِکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
مذکورہ آیت سے یہ بات سمجھ آتى ہے کہ الله تعالى نے قرآن مجيد کی حفاظت کا ذمہ ليا، اور اگر حديث نبوى قرآن كريم کی طرح حجت اور دلیل ہوتی تو اس كى بھی حفاظت كا انتظام الله تعالى كى طرف سے ہوتا۔
جوابِ شبہ

 

پہلى بات:
الله تعالى ٰنے ” ذِكر ” كی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور یہ حفاظت صرف قرآن کریم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ذکر سے مراد اللہ تعالى کا نازل کردہ دین وشریعت ہے، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ  ( سورہ النحل:43 )

ترجمہ: لہٰذا اگر تم خود نہیں جانتے تو اہل ذكر (اہل علم) سے پوچھ لو۔

اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی کتاب قرآن مجيد کی حفاظت فرمائی، اسی طرح سنت کی بھی حفاظت كا بندوبست فرمايا، اور اس کے لیے ایسے لوگ پیدا فرمائےجنہوں نے اس کو سیکھا اور سکھلایا ،یاد کیا اور اس کےکھرے اور کھوٹے میں فرق واضح کر دیا۔

دوسرى بات:
اللہ تعالیٰ كا فرمان ہے:

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ   ( سورہ النحل:44 )

ترجمہ: یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں۔

 اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ کی ذمہ داری صرف یہی نہیں تھی کہ جو کلام آپ ﷺ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا، اسے پڑھ کر لوگوں کو سنا دیا کریں یا لکھوا دیا کریں، بلکہ یہ بھی ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل ہوا اس کا مطلب اور تشریح اور وضاحت بھی لوگوں کو بتایں۔
تو اگر ہم یہ مان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن مجيد کی حفاظت کی ضمانت دی ہے اور سنت کی نہیں تو اس طرح تو قرآن سے فائدہ ادھورا (نامکمل) رہ جائےگا، کیونکہ قرآن خود بتا رہا ہے کہ اس کے بیان اور وضاحت کی ضرورت باقی رہتی ہے اور یہ بھی آپ ﷺ کی ذمہ داری ہے۔

تيسرى بات:
قرآن کے بیان (وضاحت) کے بغیر اس کی اتباع نا ممکن ہے، کیونکہ قرآن كريم کے بہت سے احکامات مختصر طور پر ذكر كيے گئے ہیں، جیسے نماز، زکوٰۃ، حج وغیرہ ان احكامات کی تفصیلات ہم نہیں جانتے سوائے اس کے جو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اپنے بیان (وضاحت) سے آگاہ کیا تو اگر احادیث محفوظ نہیں تو ان احکامات پر عمل کی کیا صورت ہوگی !
نماز کیسے اور کب ادا کی جائےگی ، زکوٰۃ کتنے مال پر اور کتنی ادا کی جائےگی اور حج کا طریقہ کار کیا ہو گا!۔

چوتھى بات:
فرمان بارى تعالیٰ ہے:

وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلاّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدىً وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ  ( سورہ النحل:64 )

ترجمہ: اس کتاب کو ہم نے آپ پر اس لئے اتارا ہے کہ آپ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں  اور یہ ایمان داروں کے لئے راہنمائی اور رحمت ہے۔

مذکورہ آیت میں رسول اللہ ﷺ کے مشن کا ذکر ہے، جو آپ ﷺ پر رسالت کی ذمہ دارى کےحوالے سے تھا، اور وہ یہ کہ قرآن کریم کی وضاحت کرنا، اور اختلافات كو حل كرنا، تو کیا آپ نے وہ مشن پورا فرمایا ؟  اگر ہاں اور يقينا ہاں تو وہ (وضاحت) محفوظ ہے یا نہیں؟، اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اس وضاحت کا فائدہ نہیں اور اگر جواب اثبات میں ہے تو وہ کہاں محفوظ ہے؟! یقیناً وہ احادیث کی شکل میں محفوظ ہوکر (اللہ تعالى کی تدبير سے) ہم تک پہنچی ہیں۔

پانچويں بات:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي    ( سورہ المائدہ:3 )

ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی۔

اگر ہم یہ دعوی مان لیں کہ سنت کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے نہیں لیا اور اس میں جھوٹ کی آمیزش ہوئی یہاں تک کے اس میں سے سچ اور جھوٹ کا پتہ نہیں لگایا جاسکتا!
 تو پھر ہمارے لئے دین کی تکمیل کیا ہے؟ یا یہ تکمیل صرف صحابہ کے لیے خاص تھی؟!
اگر یہ تکمیل سب کے لیے تھی تو ضرورى ہے کہ جو کچھ بھی رسول اللہﷺنے دین کے بارے میں کہا وہ سب کا سب بغیر ردوبدل کے محفوظ ہو!

چھٹی بات:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اپنے بندوں کے ذریعہ ہی سے محفوظ فرمایا، اور  اگر ہم تاریخ علم حديث کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے سنت کی بھی اسی طرح اپنے بندوں کے ذریعہ حفاظت کروائی، جنہوں نے سنت کی حفاظت کے لئے نہ صرف اپنی زندگیاں صرف کیں بلکہ اس کے دفاع میں اپنی جانیں اور قیمتی اشیاء بھی بے دریغ قربان کردیں، جو اس بات کی تصدیق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی سنت کو اسی طرح محفوظ رکھا ہے جیسے اس نے اپنی کتاب کی حفاظت فرمائی ہے۔
امام ابن رجب  رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بعض  لوگوں کو حديث نبوى کی حفاظت کے لیے پیدا کیا جنہوں نے اس میں سے جھوٹ، فریب اور غلط بات كو عليحده كيا، اور انہوں نے اسے بہت احتیاط سے محفوظ کیا”۔ تفسير ابن رجب الحنبلى (1/605)

علماء حديث كى اس تعلق سے منفرد كاوشیں اور كوششوں كى جهلک ديكھنے كے ليے امام خطيب بغدادى كى كتاب "شرف أصحاب الحديث” اور "الرحلة في طلب الحديث” ديكھنا مفيد ہو گا.

ساتويں بات:
یہاں دوالگ الگ چیزیں ہیں ؛ایک بیان اور دوسری مبیَّن، بیان سے مراد وضاحت اور تشریح ہے، مبیَّن سے مراد وہ نص ہےجس کی وضاحت کی گئی ہو۔ اور جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ قرآن حكيم  کے بیان کی ذمہ داری نبی ﷺ کو سونپی گئی تھی، تو قرآن مبیَّن ہوا اور آپﷺ کے فرامین اسکا بیان ہوئے اور یہ واضح ہے کہ جو بیان نبیﷺ نے فرمایا وہ قرآن میں تو موجود نہیں ہے، لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ بیان، مبیَّن سے علیحدہ چیز کا نام ہےجو كہ حديث نبوى ہی ہے، جس كى حفاظت درحقيقت قرآن مجيد كى حفاظت كا ہی ايک لازمى حصہ ہے ۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے