
اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لانے والے کو قتل کرنے کا حکم!!
وضاحتِ شبہ:
حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ مجھے (اللہ کی طرف سے) حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے۔( صحیح بخاری:25، صحیح مسلم:127 )
مذکورہ حدیث کا مضمون قرآن کے منافی ہے کیونکہ اس میں دین کو بزور طاقت لوگوں پر نافذکرنے کا حکم ہے حالانکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ كا فرمان ہے:
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۔۔۔ ( سورۃالبقرۃ:256 )
دین میں کوئی زبردستی نہیں، بلاشبہ ہدایت گمراہی سے صاف واضح ہو چکی۔
تو جب دین میں زبردستی نہیں تو آپ ﷺ یہ کیسے فرما سکتے ہیں لہٰذا یہ آپ کی بات نہیں ہو سکتی!۔
جوابِ شبہ
پہلی بات:
اس شبہ كى اصل وجہ حدیث کا غلط فہم ہے، اس حدیث میں دو الفاظ ایسے ہیں جن کا غلط معنیٰ سمجھا گیا ہے، ایک لفظ ’’أقاتل‘‘اور دوسرا لفظ ’’الناس‘‘ ہے۔ یہ سمجھنا کے’’أقاتل‘‘ کا معنی محض قتل کرنا ہے یہ غلط فہمی ہے کیونکہ عربی زبان میں اس صیغہ کا استعمال اس صورت میں ہوتا ہے جب لڑائی دونوں جانب سے ہو، یک طرفہ حملہ کو "قتل” کہتے ہیں قتال نہیں۔ اور جہاں تک لفظ’’الناس‘‘کا تعلق ہے تو اس سے مراد خاص لوگ ہیں جنہیں شریعت کی اصطلاح میں محاربین (مسلمانوں سےقتال کرنے والے) کہا جاتا ہے، نہ کے تمام انسان مراد ہیں۔
اور اس بات کی دلیل یہ ہے قرآن مجید میں لفظ ’’الناس‘‘ کا اطلاق چند لوگوں پر بھی ہوا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:
الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ( آل عمران:173 )
ترجمہ: وہ لوگ کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ بے شک لوگوں نے تمھارے لیے (فوج) جمع کرلی ہے، سو ان سے ڈرو، تو اس (بات) نے انھیں ایمان میں زیادہ کردیا اور انھوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کار ساز ہے۔
مذکورہ آیت میں پہلے والے لفظ ’’الناس‘‘سے بعض مشرکین مراد ہیں نہ کے تمام لوگ ۔ دیکھیے: تفسير الطبرى ( 5/365 )، تفسير البغوى ( 2/138 )
دوسرى بات:
یہ شبہ اس وقت جڑ سے ہی ختم ہو جاتا ہے جب ہم نبی رحمت ﷺ کی سیرت طیبہ ،آپ کی عملی زندگی اور غزوات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔جنگ وقتال کے تعلق سے ہمیں نبی ﷺ کی بے شمار ہدایات وتعلیمات ملتی ہیں جن پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے تصویر کا اصل رخ واضح ہوتا ہے كہ كيا واقعى تمام كافروں كو قتل كيا گيا يا ايسا نہیں ہوا۔
حدیث ملاحظہ ہو:
بریدہ بن حصيب رضى الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب کسی بڑے لشکر یا چھوٹے دستے پر کسی کو امیر مقرر کرتے تو اسے خاص اس کی اپنی ذات کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کی اور ان تمام مسلمانوں کے بارے میں، جو اس کے ساتھ ہیں، بھلائی کی تلقین کرتے، پھر فرماتے: "اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، جو اللہ تعالیٰ سے کفر کرتے ہیں ان سے لڑو، نہ خیانت کرو، نہ بد عہدی کرو، نہ مثلہ کرو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو اور جب مشرکوں میں سے اپنے دشمن سے ٹکراؤ تو انہیں تین باتوں کی طرف بلاؤ، ان میں سے جسے وہ تسلیم کر لیں، (اسی کو) ان کی طرف سے قبول کر لو اور ان (پر حملے) سے رک جاؤ، انہیں اسلام کی دعوت دو، اگر وہ مان لیں تو اسے ان (کی طرف) سے قبول کر لو اور (جنگ سے) رک جاؤ، پھر انہیں اپنے علاقے سے مہاجرین کے علاقے میں آ جانے کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اور ان پر وہی ذمہ دریاں ہوں گی جو مہاجرین پر ہیں۔ اگر وہ وہاں سے نقل مکانی کرنے پر انکار کریں تو انہیں بتاؤ کہ پھر وہ بادیہ نشیں مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان پر اللہ کا وہی حکم نافذ ہو گا جو مومنوں پر نافذ ہوتا ہے اور غنیمت اور فے میں سے ان کے لیے کچھ نہ ہو گا مگر اس صورت میں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔ اگر وہ انکار کریں تو ان سے جزیے کا مطالبہ کرو، اگر وہ تسلیم کر لیں تو ان کی طرف سے قبول کر لو اور رک جاؤ اور اگر وہ انکار کریں تو اللہ سے مدد مانگو اور ان سے لڑو۔۔۔”(صحیح مسلم:4522)۔
تيسرى بات:
جہاں تک اس حدیث کا قرآن کے منافی ہونے یامتعارض ہونے کی بات ہے تو خود قرآن مجید میں ایسی آیات موجود ہیں جن میں نبی ﷺ کو اس جیسے بلکہ بسا اوقات اس سے بھی سخت احکامات دیے گئے تو ان آیات کے بارے میں کیا کہا جائے گا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :
فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( التوبة:5 )
ترجمہ: پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو انہیں گرفتار کرو ان کا محاصرہ کرو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو ہاں اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا ۚ سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ( الانفال:12 )
ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے قلوب میں رعب ڈالے دیتا ہوں سو تم گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور کو مارو۔
چوتھی بات:
خود مدینہ طیبہ میں یہودکے تین بڑےقبائل آباد رہےیہاں تک کے انہوں اپنے معاہدات توڑےاور اپنے انجام کو پہنچے، اگر معاملہ ایسا ہی ہوتا جیسا کے شبہ ميں مذكور ہےتو وہ قبائل یہود اتنے عرصے تک امن وامان کی فضا میں کیسے جیتے رہےاور اسلام نہ لاکر بھی قتل کیوں نہ ہوئے؟!۔
پانچويں بات:
یہ کیسے ہو سکتا ہے ہر كافر كو قتل كيا جائے جبكہ اسلام نے ہمیں اہل كتاب كى پاكباز خواتين سے شادی کرنے كى اجازت دى ہے؟ اسى طرح پر امن كافروں كے ساتھ صلہ رحمى، ان سے قرابت دارى نبھانے ، اسى طرح ان سے صلح کرنے اور ان سے معاہدے کرنے کی اجازت دی ہے۔
چھٹی بات:
حديث كے درست مفہوم کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے كہ اسلام ميں اگر منافق ایمان ظاہر کرے اور کفر کو چھپائے، تب بھی اسے قتل کرنا جائز نہیں، حالانکہ وہ کفر میں عام کافر سے زیادہ سخت اور خطرناک ہے۔
ساتويں بات:
بعض علماء كہتے ہیں كہ حدیث سے مراد یہ ہے کہ ہم اس وقت تک لڑتے رہیں جب تک کہ الله تعلى کا کلمہ سارى زمين پر بلند نہ ہو جائے اور الله كا دین ظاہر نہ ہو جائے، اور اسلام كو تسليم نا كرنے والے اسلام كے عدل كے نظام كے تحت نا آجائیں، خواہ وہ اپنے دین پر قائم ہی كيوں نہ رہیں۔