بچوں کو نماز نہ پڑھنے پر مارنا!
وضاحتِ شبہ:
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا: ”جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز نہ پڑھنے پرمارو…‘‘(سنن ابو داود:495) یہ روایت عقل اور دین کے مزاج سے ٹكراتى نظر آتی ہےکیونکہ جب شریعت میں نماز ادا كرنابالغ فرد پر لازم ہے تو دس سال کی عمر میں نماز ادا نہ کرنے پر مارنا ناقابل فہم ہے! جب کہ دوسری جانب رسول اللہ ﷺ جیسی کریم النفس شخصیت، جنھوں نے پوری زندگی دین کو نرمی، اور حكمت سے سمجھایا، وہ کیسے ایسی ہدایت دے سکتے ہیں کہ عبادت جیسے شعوری عمل کو زبردستی ادا کروایاجائے۔
جوابِ شبہ
پہلی بات:
مذکورہ حدیث صحیح اور ثابت ہے، ائمہ ومحدثین نے اس حدیث کو معتبر قرار دیا ہے جيسے امام ترمذى، امام حاكم، امام نووى، امام عراقى وديگر ، اور ہر فن میں اس کے ماہرین کی ہی بات معتبر ہوتی ہےتو اسی طرح اس مسئلے میں بھی محدثین کی ہی رائے معتبر ہوگی۔
دوسری بات:
جہاں تک حدیث میں نابالغ کو حکم دیے جانے کی بات ہے تو وہ یہاں بالواسطہ ہے یعنی سرپرست کو حکم ہے کہ وہ بچے کو حکم دے جبکہ قرآن مجید میں بچے کو بلا واسطہ حکم کی بھی مثال ملتی ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ کسی غیر مکلف کو حکم دینے ميں کوئی مذائقہ نہیں:
اللہ تعالی كا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ( سورۃ النور:58 )
ترجمہ: اے ایمان والو ! تمہارے غلام اور لونڈیاں، اور تمہارے نابالغ بچے، تمہارے پاس آنے کی تم سے تین وقتوں میں اجازت لیں۔
تيسری بات:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم يہاں والدین کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دیں، انہیں اس کی ترغیب دیں، اور انہیں اس پر ہميشگی اختيار کرتے رہنے کے ليے تيار کریں، اس لیے کہ جب تک اولاد والدين کے ما تحت ہیں وه ان کے ذمہ دارى ہیں۔
فرمان بارى تعالى ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ( سورۃ التحريم:6 )
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔
چوتھی بات:
کسی بڑے مقصد کے حصول کے خاطر چھوٹی موٹی تکلیفیں ناقابل ذکر ہوتی ہیں۔ نماز نہ پڑھنے پر بچے کی سرزنش کے مسئلہ کو اگر اس تناظر میں سمجھا جائے کہ یہ بچے کی بہتری کےلئے ہے تو کوئی بھی ذی شعور اس کو قابلِ تنقید نہیں سمجھے گا ، جس طرح ایک ڈاکٹر بچے کے علاج کےلئے انجیکشن یا کڑوی دوا دےتو وہ اس بچے کا خیرخواہ ہی سمجھا جائے گا نہ کہ ملامت کا مستحق ٹھہرے گا اسی طرح نماز جیسی عظیم عبادت کا پابند بنانے کے لیے بچے کو بوقت ضرورت اصلاح كى غرض سے مارنا کوئی قابل ذکر بات نہیں ۔
پانچويں بات:
بچے کی اچھی تربیت کے لیے اسکی سرزنش شفقت کے منافی نہیں بلکہ یہی حقیقی شفقت کا تقاضا ہے، کیونکہ اگر کوئی بچہ اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو تو کیا اس کے سرپرست کا اسکے ساتھ کڑا برتاو غلط سمجھا جائے گا ؟
اور یہاں تو بات آخرت کی زندگی سے تعلق رکھتی ہے جو اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ اسکے بارے میں بچے کی اچھی تربیت کی جائے تاکہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہو اور حقیقی نقصان سے بچ جائے۔
چھٹی بات:
علماء فرماتے ہیں کہ مار سے مراد وہ مار ہے جس سے بغیر کسی نقصان کے نظم وضبط حاصل ہو جائے، باپ کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو شدید مارے پیٹے، اور نہ ہی اس کے لیے جائز ہے کہ وہ انہیں بلا ضرورت مارے، لیکن اگر ضرورت ہو تو ان کى تادیب اور اصلاح کرنے کا حکم دين اسلام نے دیا ہے۔ ديكھیں: المغنى لابن قدامة (1 /357)، فتاوى السبكى (1 /379)، إعلام الموقعين لابن القيم (2 / 23).
ساتويں بات:
عام مشاہدہ ہے کہ چھوٹے بچوں پر والدين مختلف موقع پر سختى كرتے ہیں، اور اس كو درست بھی سمجھتے ہیں، جيسے اسكول كے ليے نہ اٹھنا، كهانا نہ کھانا، دوائى نہ کھانا، غير مہذب گفتگو كرنا، اور ان امور ميں سختى پر معاشرہ كے افراد بھی اعتراض نہیں کرتے، تو دين اسلام كا بنيادى ركن، اور سب سے اہم فريضہ، اس ميں سستى اور كوتاہی برتنے پر سختى كرنے كو كيسے معيوب سمجھا جا سكتا ہے!