بنو اميہ كا ذكر حديث نبوىﷺ ميں
وضاحتِ شبہ:
وہ احادیث جن میں بنو امیہ کا ذکر ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سچوں کے سچے رسول کریم ﷺ سے سنا ہے ، آپ فرمارہے تھے کہ میری امت کی بربادی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں پر ہوگی ۔(صحیح بخاری:3605)
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے یزید بن ابی سفیان سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا فرما رہے تھے: پہلا شخص جو میری سنت(طریقے)کو تبدیل کرے گا بنو امیہ میں سے ہوگا۔(مصنف ابن ابى شيبہ: 20/156،سلسلۃ الاحاديث الصحیحۃ:1749)
ان دونوں احادیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کے آپ ﷺ نے بنو امیہ کی مذمت فرمائی!
جوابِ شبہ
پہلی بات:
سب سے پہلے یہ جاننا ضرورى ہے کہ بنو امیہ سے مراد کون ہیں ؟ درحقيقت بنو امیہ سے مراد امیہ كى اولاد ہیں، اور امیہ عبد شمس کا بیٹا تھا ،عبد شمس اورہاشم بھائی تھےجو کہ نبی ﷺ کے پر دادا ہیں اب جب ہم نے یہ جان لیا کہ بنو امیہ نبی ﷺ کے چچازاد ہیں، اور يہ قبيلہ مكہ میں آباد قريش كے مشہور قبائل ميں سے تھا ،ان میں سے اسلام سے سرفرازہونے والے اور شرف صحبت حاصل کرنے والی بعض مشہور ہستیوں میں سر فہرست داماد رسول ﷺ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں نبی ﷺ کی دو بیٹیوں سے رشتہ کی سعادت حاصل ہوئی ،اسى طرح ام المؤمنین ام حبیبہ اور ان کے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہم اجمعین۔
دوسری بات:
یہ ایک مسّلم حقیقت ہے کہ ہر قوم اور قبیلے میں تمام لوگ اچھےیا برے نہیں ہوتے ،اور احادیث نبویہ میں بھی کسی قوم کی مدح یا مذمت سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ اس قوم کے تمام افراد اسکے مصداق ہیں بلکہ اس کو اسی دائرے تک محدود رکھا جائیگاجس میں بات ہورہی ہے،تو اسی طرح بنو امیہ بھی ایک قبیلہ ہے اگر ہمیں ان کے بارےمیں ایسی کوئی حدیث یا احادیث ملتی ہیں جن میں کوئی مذمت کاپہلو بھی ہو تو اس سے انکے اچھے لوگوں پر کوئی حرف نہیں آئے گا ۔
تیسری بات:
اسلام میں نيكى كا اصل معیار تقوی ہےنا کہ کسی قوم وقبیلے کی طرف نسبت!
قوم وقبیلے کی نسبت تو صرف جان پہچان(تعارف) کے لیے ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ( سورۃ الحجرات:13 )
ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہےاور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔
تو پھر کیسے کسی قوم وقبیلے کی طرف صرف نسبت ہی مذمت کا باعث ہوسکتی ہے، جبکہ وہ كسى بھی انسان كے اپنے اختيار میں نہیں ؟! ۔
چوتھی بات:
آپ ﷺ کا حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے نکاح، اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں اپنی ایک کے بعددوسری بیٹی دینا اس بات کو انتہائی واضح کردیتا ہے کہ بنو امیہ کوئی مذموم قبیلہ نہیں ورنہ رسول اللہ ﷺکیوں ان سے رشتے جوڑتے،کیا رسول اللہ ﷺ نے ایک مذموم قبیلے سے رشتہ جوڑا؟! ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا۔
پانچویں بات:
مذکورہ احادیث میں سے پہلی حدیث صحیح بخاری کی ہے جس میں نبی ﷺنےیہ بتایا کہ: ’’ میری امت کی بربادی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں پر ہوگی‘‘یہ آپ ﷺ کے معجزات میں سے ہے کے آپ نے آنے والے وقت کےفتنوں سے خبردار کیا کہ ایسا وقت آئے گا کہ بعض نااہل لوگ حکمران ہوں گے جوکم عمری یا کم عقلی کی وجہ سے امت کی ہلاکت کا باعث بنیں گےاور یہ ہلاکت انکے حکومت کے لئے لڑنے کی وجہ سےہوگی جیسا کہ شارحین حدیث نے اس حدیث کی شرح میں ذکر کیاہے( دیکھیے: فتح الباری حدیث:7058) ۔
چنانچہ نبی ﷺ کے قول کے مصداق خلافت راشدہ كے سنہری دور كے بعد عہد بنو امیہ میں بعض ایسے حکمران آئے جو امت کی بربادی کا باعث بنےلیکن ان چند ایک کی وجہ سے تمام کو مذموم کیسے سمجھا جاسکتا ہے، اور بالخصوص صحابہ كرام كو ، جبکہ حدیث میں چند لڑکوں کی وضاحت موجود ہے تو اس سے کیسے کلی طور پرپورے قبیلے کی مذمت سمجھی جا سکتی ہے؟!
ذرا سوچيں کیا ابو لہب کا ہاشمی ہونا بنو ہاشم کے لئے ،اور ابو جہل كا قريشى ہونا تمام قريش کے لئے باعث مذمت ہے؟!
چھٹی بات:
مذکورہ احادیث میں سے دوسری حدیث ’’پہلا شخص جو میری سنت(طریقے)کو تبدیل کرے گا بنو امیہ میں سے ہوگا‘‘اس حدیث کی صحت کے بارے میں اختلاف ہےبعض محدثین نےاس حدیث کوسند میں انقطاع کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے جو کہ حضرت ابو ذر غفاری اوران سے روایت کرنے والےراوی( ابو العالیہ رفیع بن مہران ) کے درمیان ہے. دیکھیے: تاريخ ابن معين (4/ 12) -روايہ الدورى-، التاريخ الاوسط للبخاری (1/397)، البدايہ والنہايہ لابن كثير(11/649).
اور بعض محدثین اس حدیث کو حسن کہتے ہیں، بفرض صحت حدیث اس کا مصداق بنو امیہ کے بعض وہ افراد ہیں جنہوں نے نبی ﷺ کی سنتوں کی ویسے پاسداری نہیں کی یا خیال نہیں رکھا جیسا کہ اس کا حق تھا۔
امام محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو حسن کہا پھر اس سے مراد بيان كرتے ہوے کہا:
( شایداس حدیث سے مراد خلیفہ کے انتخاب کے نظام کو بدل کر اسے موروثی قرار دینا ہے واللہ اعلم)۔(دیکھیے:سلسلۃ الأحاديث الصحیحۃ:1749)
یا جیسے بنو امیہ کے بعض حکمرانوں(مروان بن حكم) نے عید کا خطبہ نماز سے پہلے دیا حالانکہ آپ ﷺ عید کا خطبہ نماز کے بعد ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ صحيح بخارى (956) تو یہ آپ کى سنت كى تبديلى ہے.