کبار صحابہ كرام نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث کو رد کیا؟

کبار صحابہ كرام نے سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ کی احادیث کو رد کیا؟

وضاحتِ شبہ:
بعض معترضین سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احاديث پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ صحیح نہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ بعض صحابہ نے سیدنا ابوہریرہ کی احادیث پر رد کیا جیساکہ سیدنا عمر نے زیادہ احادیث بیان کرنے کی وجہ سے ابوہریرہ کو مارا اور ڈانٹا ، عثمان و علی رضی اللہ عنہم وغیرہ نے بھی ان کا رد کیا ۔
جوابِ شبہ

سیدنا ابوہریرہ کی احادیث کو صحت کے اعتبار سے کسی صحابی نے بھی رد نہیں کیا البتہ اس تعلق سے جو چند واقعات بیان کیے جاتے ہیں ان کی حقیقت پیش کی جاتی ہے۔

سیدنا عمر کامارنا یا ڈانٹنا کسی  صحیح سند سے ثابت نہیں:
اس سلسلے میں جو سیدنا عمر کے مارنے کی بات کی جاتی ہے یہ صحیح نہیں اس لیے کہ اس مفہوم کی روایات بذات خود اسنادی طور پر ناقابل اعتبار ہے  تو ان سے استدلال کیسے صحیح ہوسکتا ہے ؟

مثال کے طور پر اس سلسلے میں بیان کردہ روایت "شرح نھج البلاغہ” کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے کہ روایات بیان کرنے پر عمر نے ابوہریرہ کو مارااور کثرت روایات سے روکا (شرح نھج البلاغۃ لابن ابی الحدید :4/67 ) یہ روایت بیان کرنے والاابو جعفر الاسکافی المعتزلی  ثقہ نہیں ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (السنۃ قبل التدوین : 457)

  جہاں تک بعض روایت میں زیادہ روایات بیان کرنے پر سختى  کا ذکر ہے جیساکہ سائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا عمرکو ابوہریرہ سے یہ کہتے ہوئے سناکہ تم حدیث بیان کرنا چھوڑ دو ورنہ میں تمہیں دوس بھیج دوں گا اور کعب سے کہا  کہ تم احادیث بیان کرنا چھوڑ دو ورنہ میں تمہیں بندروں کے علاقے میں بھیج دوں گا۔ (سیر اعلام النبلاء : 2/600، 601)  تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے اس قسم کی سختى  کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ سیدنا ابوہریرہ پر طعن کرتے ہوں یا  سیدنا ابوہریرہ پر اعتبار نہ ہو کہ وہ جھوٹی روایات بیان کرتے ہیں ، بلکہ مقصد یہ تھا کہ ان روایات سے لوگ  غلط مفہوم نکالیں یا ان رخصتوں پر مشتمل احادیث پر ہی توکل کر بیٹھیں  اس لیے  روکا تھا۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں :

 وهذا محمول من عمر على أنه خشي من الأحاديث التي تضعها الناس على غير مواضعها٬ وأنهم يتكلون على ما فيها من أحاديث الرخص٬ وأن الرجل إذا أكثر من الحديث ربما وقع في أحاديثه بعض الغلط أو الخطأ٬ فيحملها الناس عنه أو نحو ذلك (البدایۃ والنھایۃ : 4/591)

ترجمہ: سیدنا عمر اس بات سے ڈرے کہ لوگ احادیث سے غلط استدلال کریں اور احادیث میں موجود رخصتوں پر ہی اکتفاء کربیٹھیں  اور اس لیے بھی کہ کوئی شخص جب بہت احادیث بیان کرتا ہے تو کبھی کبھی غلطی کا بھی اندیشہ ہوتا ہے اور لوگ اسے اسی طرح لے لیتے ہیں۔ 

مزید یہ کہ سیدنا عمر کا اس  کے بعد انہیں احادیث بیان کرنے کی اجازت دینا بھی ثابت ہے۔  جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے خود بیان کیا ہے ۔ (البدایہ والنھایہ )

بلکہ مسند احمد میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ احادیث بیان کرنے سے پہلے  کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جوکہ سچے ہیں  کہ جس نے  مجھ پر کوئی جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔  (پھر حدیث بیان کرتے۔ ) (مسند احمد : 15 /204 ، بتحقیق الشیخ شعیب الارناؤط )  معلوم ہوا کہ   سیدنا عمر احتیاطی طور پر ایسا کرتے تھے نہ کہ اس وجہ سے کہ وہ سیدنا ابوہریرہ کی احادیث کو ناقابل اعتبار سمجھیں۔

سیدنا عثمان و علی کا ابوہریرہ کی روایات کا انکار کرنا بھی ثابت نہیں :
بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عثمان و علی نے سیدنا ابوہریرہ کی احادیث کی تکذیب کی ،جس روایت کی بناء پر یہ کہا جاتا ہے(دیکھیے : المحدث الفاصل بین الراوی والواعی  ص553)  اس کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی واقعہ ہے جو سیدنا عمر  کا ہے جس کاذکر گزر چکا،  راويو ں کی غلطی سے اسے سیدنا عثمان کی طرف منسوب کردیا گیا بالفرض والمحال اگر سیدنا عثمان کی طرف اس کی نسبت کو قبول کر بھی لیا جائے تو بھی  اس  میں سیدنا ا بوہریرہ کو روایت بیان کرنے سے روکا تو گیا ہے لیکن ان روایات کے بیان کرنے میں ان کی تکذیب نہیں کی۔

سیدنا علی کی طرف منسوب روایت  جس میں ہے کہ سیدنا علی نے سیدنا ابو ہریرہ کو "اکذب” (جهوٹا)  کہا (شرح نھج البلاغۃ: 1/468) سنداً ضعیف ہے کہ اس کا بیان کرنے والا ابو جعفر الاسکافی ہےجو خواہش پرست ضعیف راوی تھا۔  

کیا  عبد الله بن مسعود  رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ کی روایات کو رد  کیا ؟
بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان کی:  "مَن غسّل میتًا فلیغتسل ومن حملہ فلیتوضأ” (جامع ترمذی : 993) تو ابن مسعود ، ابن عباس  نے ا ن کی اس حدیث کا رد کیا۔ بعض کتب  حديث میں یہ بات موجود ہے لیکن اس کی حقیقت یہ ہے کہ  ابن عباس ،  ابن مسعود   وغیرہ سے اس کا انکار ثابت نہیں ۔

 ابن عباس کا  قول امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب میں لائے ہیں کہ مومن نجس (ناپاک) نہیں ہوتا۔

  امام ترمذی روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں اس موضوع  پر سیدنا علی اور سیدنا عائشہ سے بھی روایات مروی ہیں۔ مزید فرماتے ہیں کہ اس موضوع پر صحابہ  کے مابین بھی اختلاف ہے۔ بلکہ بعد کا اختلاف بھی بیان کیاہے۔ لہذا سیدنا ابوہریرہ اس حدیث کو اکیلے بیان نہیں کرتے  نیز صحابہ کے مابین اس مسئلے پر اختلاف بھی  ر ہا ہے۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے