بُحیرا راہب سے ملاقات
وضاحتِ شبہ:
حدیث میں بحیرا راہب کے حوالے سے ایک قصہ مذکور ہے (جامع ترمذی: 3620 ، باب ماجاء فی بدء نبوۃ النبی ﷺ) بعض لوگ نبی کریم ﷺ کی بحیرا راہب سے ملاقات کو مشکوک قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بحیرہ کسی وہمی شخصیت کا نام ہے ، حقیقت میں اس شخصیت کا کوئی وجود نہیں۔ وہ اس واقعے کو تشکیک کا نشانہ اس لیے بناتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ نبی کریم ﷺ کی نبوت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ کیا بحیراراہب کا قصہ سندا صحیح ہے؟ کیا نبی کریم ﷺ نے بُحیرا راہب سے کچھ سیکھا؟
جواب شبہ
پہلی بات:
کیا بحیرا راہب کا قصہ سنداً صحیح ہے؟ بعض اہل علم کے نزدیک یہ قصہ سنداً ثابت نہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ قصہ ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کی سند کے راویوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ صحیح بخاری کے راوی ہیں۔ (الاصابۃ 1/643 )
امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ اہل مغازی کے ہاں مشہور ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس واقعے کی اصل ثابت ہے۔ (الفصول فى السيرة ، ص267)۔
ضمنی شبہ: کیا نبی کریم ﷺ نے بحیرا راہب سے کچھ سیکھا؟ اس قصے کی روشنی میں نبی کریم ﷺ کے حوالے سے چند شبہات وارد کیے جاتے ہیں جن کا بالترتیب جواب پیشِ خدمت ہے۔ واضح رہے کہ صحیح قصہ میں بحیرا نام موجود نہیں بلکہ بغیر نام کے راہب کا تذکرہ موجود ہے، اور دین اسلام بحیرا راہب سے حاصل کیا گیا، یہ بات بالکل غلط ہے ۔
جوابِ شبہ
پہلی بات:
یہ محض دعوی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں، صرف ملاقات کو تعلیم و تعلم کی دلیل بنانا عجیب تر ہے۔ ورنہ شبہات وارد کرنے والوں پر لازم ہے کہ بحیرہ راہب سے کیا کچھ سیکھا گیا یا سنا گیا اس کی تفصیل یا ان تعلیمات کو دلائل کے ساتھ بیان کریں۔ جبکہ وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ایسی کوئی تفصیل کہیں موجود ہی نہیں۔
دوسری بات:
نبی کریم ﷺ اس شخص سے صرف ایک بار ملے اور وہ بھی بچپن کی عمر میں۔ جب ان کے چچا ابو طالب نے ان کے ساتھ شام کا سفر کیا تھا۔
تیسری بات:
ساری زندگی میں نبی کریم ﷺ کا شام کی طرف سفر دو بار ملتا ہے۔ ایک بار بچپن میں اور ایک بار جوانی میں۔ دونوں مرتبہ آپ بصرہ کے بازار سے آگے نہیں گئے۔ اس موقع پر تعلیم کا کوئی ثبوت موجود نہیں ۔ پہلی مرتبہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ابو طالب تھے اور دوسری مرتبہ سیدہ خدیجہ کے غلام میسرہ تھے۔ بچپن والے واقعے میں بعض اسانید میں بغیر نام کے راہب اور بعض روایات میں بحیرہ کانام مذکور ہے لیکن وہ ضعف سے خالی نہیں اس موقع پر بحیرہ نے نبی کریم ﷺ کے چچا ابو طالب سے یہی کہا کہ میں نے درختوں کو جھکتے دیکھا ہے اور یہود کی روش سے ڈرایا۔
چوتھی بات:
اس موقع پر راہب نے جو کچھ کہا وہ کوئی نئی بات نہیں تھی بلکہ وہی بات کہی جواس وقت پرانے دین پر قائم اہل کتاب کہتے تھے۔
یہ بات بڑی عجیب ہے کہ جن تاریخی روایات سے نبی کریم ﷺ کی نبوت کی نشانی ملتی ہے اور غیر مسلم عالم کا تسلیم کرنا ثابت ہوتا ہے بجائے اس کے کہ اس سے درست مفہوم لیا جائے جس مفہوم میں یہ واضح ہے کہ اس شخص نے نبی کریم ﷺ کی بعثت کی گواہی دی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس سے سبق سیکھا چاہتا مگر اس سے عجیب و غریب مفہوم یہ نکال لیا گیا کہ جو شخص نبوت کی بشارتیں دے رہا ہے وہی استاد ہے۔ حالانکہ وہ شخص تو ان نشانیوں سے خود متاثر ہے ۔اس راہب کے الفاظ یہ ہیں:
هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِينَ هَذَا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَبْعَثُهُ اللَّهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ ( جامع ترمذی:3620 )
ترجمہ: یہ سارے جہان کے سردار ہیں، یہ سارے جہان کے رب کے رسول ﷺ ہیں، اللہ انہیں سارے جہان کے لیے رحمت بناکر بھیجے گا۔
پانچويں بات:
اگر بحیرا اس اسلامی فیض کا مصدر ہوتا تو وہ نبوت کا زیادہ اہل ہوتا اور وہ یہی چاہتا کہ اس کی پیروی کی جائے چہ جائیکہ کہ وہ کسی اور کو اس كے ليے تیار کرتا۔