وضاحتِ شبہ:
ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چھپکلی کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور کہا: وہ ابراہیم علیہ السلام کے خلاف (لگائی گئی آگ تیز کرنے کے لیے) پھونک رہی تھی۔ [صحيح البخاري : 3359]
اس حدیث کی بنیاد پر دو اعتراضات کیے جاتے ہیں:
– یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو آگ کے قریب جانے سے بھی ڈرتا ہو، وہ اتنی بڑی آگ میں پھونک مار کر اسے بھڑکانے کا سبب بن جائے!
– اگر اُس چھپکلی نے آگ بھڑکائی تھی تو اس کی سزا بعد میں آنے والی چھپکلیوں کو کیوں دی جا رہی ہے؟ اس لحاظ سے یہ حدیث قرآن مجید کی اس آیت کے بھی خلاف ہے ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾ [الأنعام : 164] ترجمہ: کوئی نفس کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
جوابِ شبہ
پہلی بات:
چھپکلی مارنے کے تعلق سے نبیﷺ کے پانچ صحابہ سے احادیث وارد ہیں، جن کے نام یہ ہیں: سیدہ امِ شریک (غُزیَّہ) [صحيح البخاري : 3359 ، صحيح مسلم : 2237] ، جناب سعد بن ابی وقاص [صحيح البخاري : 3306 ، صحيح مسلم : 2238] ، جناب ابو ہریرہ [صحيح مسلم : 2240] ، ام المؤمنین عائشہ [مصنف عبد الرزاق : 8656] ، جناب عبد اللہ بن مسعود [مسند أحمد : 3984 ، صحيح ابن حبان : 5630] رضی اللہ عنہم اجمعین۔ لہٰذا نبیﷺ سے چھپکلی مارنے کا حکم یقینی طور پر ثابت ہے۔
دوسری بات:
اسلام میں جانوروں کی جان کی قیمت انسانوں جتنی نہیں ہے۔ اسلام کے نزدیک ایک انسان کی جان جانور سے کہیں زیادہ محترم اور عزیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جانور کے قتل پر قصاص یا دیت کا نظام نہیں رکھا گیا ہے۔ انسان کی یہ تکریم اس خالق کی طرف سے ہے جس نے انسان اور جانور دونوں کی تخلیق فرمائی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا [الإسراء : 70]
ترجمہ: اور بلاشبہ یقیناً ہم نے آدم کی اولاد کو بہت عزت بخشی اور انھیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا اور انھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے جو مخلوق پیدا کی اس میں سے بہت سوں پر انھیں بڑی فضیلت دی۔
نوعِ انسانی کی یہ تمام تکریم صرف اس لئے ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی امانت یعنی اس کی وحی کا حامل ہے جبکہ دیگر مخلوقات نے اس امانت کے ڈر سے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ [الأحزاب : 72]
ترجمہ: بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔
لیکن دوسری طرف اسلام جانوروں کو بلا وجہ قتل کرنے کا حکم بھی نہیں دیتا بلکہ صرف ان جانوروں کے قتل کا حکم دیا جو بری صفات کے حامل یا انسان کی جان کو نقصان پہنچانے والے تھے کیونکہ انسانیت کی بقا جانور سے زیادہ اہم ہے بلکہ زمین و آسمان کی تمام چیزیں انسان کے لئے ہی مسخر اور اس کی خدمت پر مامور ہیں۔ ارشادِ باری ہے:
أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ [لقمان : 20]
ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ نے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے تمہاری خاطر مسخر کر دیا۔
تیسری بات:
یہ کہنا کہ ایک چھوٹا سا کیڑا کیسے آگ بھڑکا سکتا ہے تو اس بارے میں عرض ہے کہ دینِ اسلام میں جزا و سزا نتائج پر نہیں بلکہ کوشش پر مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں یہ اہم نہیں کہ اس چھپکلی نے کتنی آگ بھڑکائی اور کتنی نہیں۔ اہم یہ ہے کہ آگ بھڑکانے کے لیے اس نے مقدور بھر کوشش کی یا نہیں۔ حدیث میں بھی صرف اتنا مذکور ہے کہ اس نے آگ بھڑکانے کے لیے پھونک ماری۔ یہ مذکور نہیں کہ وہ آگ اسی کی پھونک سے بھڑکی تھی! اس کی مزید وضاحت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ مینڈک ابراہیم علیہ السلام کی اس آگ کو بجھا رہا تھا اور چھپکلی آگ میں پھونک مار رہی تھی جس سے سمجھ آتا ہے کہ اگرچہ مینڈک کے آگ بجھانے سے بجھنے والی نہ تھی لیکن چونکہ اس نے اس سلسلے میں اپنے حصے کی کوشش کی لہٰذا اس کا صلہ یہ ملا کہ شریعت نے مینڈک کو قتل کرنے سے منع کر دیا۔ [مصنف عبد الرزاق : 8656]
چوتھی بات:
جہاں تک حدیث اور آیت کے ٹکراؤ کا دعویٰ ہے تو وہ بھی سراسر غلط فہمی کی بنیاد پر قائم ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ آیت کا تعلق انسانوں کے ساتھ ہے کیونکہ آیت میں جس بوجھ کا ذکر ہے وہ گناہوں کا بوجھ ہے اور یہ بات معلوم اور مسلم ہے کہ گناہ اور ثواب کا تعلق جانوروں سے نہیں ہوتا کیونکہ وہ شریعت کے مکلف نہیں ہوتے۔ دوسری بات یہ کہ ہر جانور میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہوتی ہیں اور وہ خوبی یا خامی اس نسل کے ہر جانور میں پائی جاتی ہے۔ بعض جانور وفاداری اور بہادری میں مشہور ہوتے ہیں جبکہ بعض دوسرے چالاکی اور بے وفائی میں شہرت رکھتے ہیں۔ اس حدیث میں بھی اُس چھپکلی کی غلطی کی سزا باقی چھپکلیوں کو دینے کا ذکر نہیں بلکہ اس چھپکلی کا آگ میں پھونک مارنا اس میں موجود ایک بری خصلت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ کیڑا یا جانور اللہ کے نیک بندوں کا ساتھ دینے کے بجائے انہیں ضرر پہنچانے کے درپے ہوتا ہے۔ اب یہ بری خصلت چونکہ تمام چھپکلیوں میں پائی جاتی ہے لہٰذا انہیں قتل کرنے کا حکم دیا۔
پانچویں بات:
بعض احادیث میں اس چھپکلی کو قتل کرنے کی ایک اور وجہ بھی مذکور ہے اور وہ یہ کہ اسے ’’فُوَيْسِق‘‘ قرار دیا گیا ہے[صحيح مسلم : 2238] ۔ "فُوَيْسِق” فاسق سے ماخوذ ہے۔ لغت میں فاسق کا معنیٰ نکلنے والا ہے۔ انسانوں میں فاسق اسے کہتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی فرمانبرداری سے نکل جائے جبکہ جانوروں میں فاسق وہ ہوتا ہے جو حدِّ اعتدال سے نکل کر لوگوں کو ضرر پہنچانے والا بن جائے۔ اہلِ علم نے چھپکلی کے ضرر پہنچانے کی کئی صورتیں ذکر کی ہیں جن میں انسان کے کھانے کو نقصان پہنچانا قابلِ ذکر ہے۔ اس کے علاوہ آج کی جدید سائنس بھی اس کو ثابت کرتی ہے کہ چھپکلی کچھ ایسے بیکٹیریا منتقل کرنے کا سبب بنتی ہےجو آنتوں کی بیماری کا سبب بنتے ہیں جن میں Salmonella بیکٹیریا قابلِ ذکر ہے۔
چھٹی بات:
اسلام میں جن جانوروں کے قتل کا حکم دیا گیا ہے اس کا مقصد اس کی نسل کا خاتمہ نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ کہ ان کو قتل کرنا ایک مسلمان کے شب و روز کا مشغلہ بن جائے بلکہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ ان میں سے جو جانور سامنے آ جائے اسے قتل کر دیا جائے۔ ورنہ اگر نسل کا خاتمہ مقصود ہوتا تو آج یہ جانور موجود ہی نہ ہوتے بلکہ پہلے کے لوگ جو ہم سے زیادہ احادیث پر عمل کرنے والے تھے وہ یہ فريضہ انجام دے چکے ہوتے۔
ساتویں بات:
اسلام نے اگرچہ چھپکلی کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اس کے قتل میں بھی شریعت کی رحمت کا پہلو اجاگر ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ شریعت نے یہ حکم دیا کہ اسے احسن طریقے سے مارا جائے جس میں تکلیف اور اذیت کا پہلو نہ ہو بلکہ اس کو مارنے کا ثواب اس طرح مقرر کیا کہ جو اسے ایک ہی ضرب میں مارے گا اسے زیادہ اجر ملے گا[صحيح مسلم : 2240] کیونکہ اس میں تکلیف کم ہوگی۔ جس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ شریعت کا مقصد اس جانور سے بدلہ لینا یا اذیت دینا نہیں بلکہ محض انسان کی مصلحت کی خاطر یہ حکم دیا گیا۔