ایک عورت نے خود کو نبی کریم ﷺ کے لیے پیش کیا!

ایک  عورت نے خود کو نبی کریم ﷺ کے لیے پیش کیا!

وضاحتِ شبہ:
حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے خود کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا  ( صحیح بخاری:5113 ) یہ نبی کریم ﷺ کی عظمت اور  عورت کے مقام کے خلاف ہے ۔
جوابِ شبہ

 

پہلى بات:
 اس حدیث کو موردِ اعتراض ٹھہرانے سے قبل جاننا چاہیے کہ یہ  مسئلہ  قرآن کریم میں  بھی بیان ہوا ہے

وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ  ( الاحزاب:50 )

 ترجمہ: اور کوئی بھی مومن عورت اگر وہ اپنا آپ نبی ﷺ کو ہبہ کر دے، اگر نبی ﷺ اس سے شادی کرنی چاہیں، یہ حکم آپ کے لئے خاص ہے، عام مسلمانوں کے لئے نہیں ہے۔

لیکن یہ مسئلہ قرآن کریم میں ہو یا احادیث میں کسی طور پر بھی قابلِ اعتراض نہیں۔ جس کی مزید تفصیل آئندہ نکات میں پیش ہے۔

دوسرى بات:
واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص ہے ۔  اور عورت کی طرف سے خود کو صرف ہبہ کردینا کافی نہ تھا  بلکہ اس کے  بعد ایجاب وقبول بھی ضروری تھی۔

تيسرى  بات:
صرف اللہ کے رسول ﷺ کی ذات تک مخصوص اس مسئلے میں بھی قرآن و سنت میں صرف جواز کا ذکر ہے، نبی کریم ﷺ نے حقيقت میں اس رخصت سے فائدہ اٹھايا ہو اس کی کوئی مثال موجود نہیں بلکہ معاملہ تو اس کے برعکس ہے کہ اگر خواتین نے اپنی ذات ہبہ کرنے کی بات بھی کی تو نبی کریم ﷺ نے ان کا نکاح کسی صحابی سے کروادیا۔ (صحیح البخاری : 5029)
جبکہ ایک عورت سےفرمایا  :

ما لي في النساء من حاجة  ( صحیح البخاری:5029 )

 ترجمہ : اب مجھے عورتوں سے نکاح کی کوئی حاجت نہیں ہے۔

بعض ازواج مطہرات کی خواہش تھی ان کے رشتے داروں میں سے کوئی عورت ازواج مطہرات میں شامل ہوجائے اور انہوں نے نبی کریم سے جب اس ارادے کا اظہار کیا تو آپ نے اس سے روکا۔
ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ  اللہ رب العالمین کی طرف سے عطا کردہ اس اجازت کے  باوجود اور بہت سے لوگوں کی خواہش اور چاہت کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے ایسا نکاح نہیں فرمايا۔

چوتھی  بات :
حقيقت ميں یہ مسئلہ تو دینِ اسلام میں عورت کے اختیارات کو بیان کرتا ہے۔ دینِ اسلام  سے قبل تاریکی کے دور میں اور بہت سی تہذیبوں میں تاحال عورت کی  حیثیت مملوکہ مال کی سی تھی، قبیلے کے سردار، بادشاہ اور مذہبی پيشوا وغيره تو جیسے عورت پر کلی اختیارات رکھتے ہوں، عورت کے ارادہ واختیارات کا اس دور میں کوئی تصور تک نہ ہوتا۔ اور اسلام ميں خواتین کو یہ اختیار دیا گیا کہ جس كى وجہ سے بعض خواتین نے اس کا اظہار بھی کیا مگر نبی کریم ﷺ نے اجازت ورخصت ہونے کے باوجود ایسا نہ کیا۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے