گرمی کا موسم جہنم کے سانسوں میں سے ہونا خلاف ِ عقل و سائنس ہے!
وضاحت شبہ :
سائنس کہتی ہے کہ سورج اور زمین کی قربت موسم پر اثر انداز ہوتی ہے جبکہ حدیث میں ہےکہ یہ جہنم کے سانسوں میں سے ہے؟ اور جہنم کا کلام کرنا بھی عقل کے خلاف ہے ؟ (البخاري 3087، مسلم 617)
جواب شبہ
پہلى بات:
جہنم کا اپنے رب سے شکایت کرنا عقل یا سائنس کے خلاف نہیں ، یہ امور ِ غیبیہ میں سے ہے جسے ہم دنیوی عقل و آلات کی بنیاد پر نہیں پرکھ سکتے ۔
دوسرى بات :
معلو م ہوکہ جہنم کا یہ کلام کسی مخلوق سے نہیں بلکہ اپنے رب سے ہے جو ہر شے پر قادر ہے۔
تيسرى بات :
سینکڑوں دنیوی امور اس مسئلے کو عقلی طور پر تسلیم کرلینے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں جیسا کہ بخار کی حرارت کا معلوم ہونا وغیرہ جب اس دنیا میں انسان جیسی مخلوق جسے قرآن کریم کمزور قرار دیتا ہے ، یہ مخلوق بھی ان امور کے جاننے پر واقفیت حاصل کرسکتی ہے تو ہر شے پر قادر مطلق رب جو مخلوقات کا خالق بھی ہے وہ مخلوقات سے کلام یا کسی مخلوق کو کلام کی طاقت دینے پر یا کسی مخلوق کی مشکل کو دور کرنے پر قادر نہیں ؟
چوتھی بات:
قرآن کریم میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی جو اسی قسم کی عقلی بنیادوں پر عقیدہ آخرت کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور دوبارہ جی اٹھنے کے منکر تھے قرآن کریم نے ان کی مذمت میں یہ اسلوب اختیار کیا کہ جو رب پہلی مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے کیا وہ دوبارہ اٹھا نہیں سکتا۔ چنانچہ فرمانِ الہی ہے :
قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أنْشَأهَا أوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ ( یس:79 )
ترجمہ: فرمادیں کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ اور وہ سب قسم کا پیدا کرنا جانتا ہے۔
أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ( یس:81 )
ترجمہ: بھلا جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو وہ پھر ویسے ہی پیدا کر دے ؟ کیوں نہیں اور وہ تو بڑا پیدا کرنے والا علم والا ہے۔
اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ واضح کیا ہے بعض اہل علم نے اس حدیث کو حقیقت پر محمول کیا ہے جبکہ ایک گروہ نے اسے مجاز پر محمول کیا ہے ۔ حقیقت پر محمول کرنے کرنے والے کے اہل علم کے پاس قرآن میں بھی اس کے نظائر میں موجود ہیں جیسا کہ ہاتھوں ، پاؤں کی گواہی (النور : 24 ) ، مختلف اشیاء کے تسبیح کرنے کا ذکر ( الاسراء : 4 ، سبا : 10 ، ص : 18 ) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا جہنم سے کہنا کہ کیا تو بھر گئی ؟اور جہنم کہے گی اور زیادہ ۔ ( ق:30 ) اس طرح کی مثالیں قرآن میں بکثرت ہیں جنہیں مجاز کی بجائے حقیقت پر محمول کیا گیا ہے ۔جبکہ دو سرا گروہ جو اسے مجاز ی معنی پر محمول کرتا ہے اس کے پاس بھی قرآنی نظائر موجود ہیں حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے وہو مثالیں پیش کرنے کے بعد آخر میں ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اسے حقیقی معنی پر ہونے کو ترجیح دی۔(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد ) حافظ قرطبی ، حافظ ابن حجر ، نووی ،و دیگر اہل علم نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے جبکہ بعض نے اس کی تاویل کرتے ہوئے مجازی مفہوم مراد لیا ہے۔ شیخ صالح المنجد وغیرہ نے واضح کیا ہے کہ یہ دونوں سانس سردی یا گرمی میں دیے جاتے ہیں نہ کہ سردی یا گرمی کےموسم کے وجود کا باعث بنتے ہیں۔ زمین کے سورج سے قرب و بعد کی بنیاد پر سردی کی شدت یا گرمی کی شدت وجہ سمجھنے والے اس حدیث کو غلط نہ ٹھہرائیں ، کیونکہ بہت سے امور میں اسباب کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے بعض امور حسی طور پر کچھ ہوں اور شرعی طور پر کچھ ہوں ایسا ہوسکتا ہے ۔ سببِ شرعی سے مراد جو وحی کے ذریعے متعین ہو اور سببِ حسی جو حواس کے ذ ریعے جانا جائے۔ مثال کے طور پر سورج گرہن کا فلکیات کی رو سے سبب یہ ہے کہ چاند کا زمین اور سورج کے درمیان آجانا اس کے لیے خسوف کا لفظ مستعمل ہے سورج گرہن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یہ دونوں روشنیوں کے اجسام قریب قریب نہ آجائیں جو عام طور پر اٹھائیس ، انتیس اور تیس کو ممکن ہے۔ اور چاند گرہن کا سبب زمین کا چاند اور سورج کے درمیان آجانا۔ یعنی چاند گرہن اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک یہ ایک دوسرے کے مقابل نہ آجائیں اور یہ پورے چاند کی راتوں میں ہوتا ہے جب چاند مغرب اور سورج مشرق میں یا چاند مشرق میں اور سورج مغرب میں ہو۔ اس سبب کو علم فلکیات بیان کرتا ہے لیکن اس کا شرعی سبب حدیث نے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعےسے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ بالکل اسی طرح مذکورہ مسئلے میں عین ممکن ہے کہ گرمی کی شدت یا سردی کی شدت کا ایک سبب حسی ہو اور دوسرا شرعی ہو، دونوں بیک وقت جمع ہوسکتے ہیں ۔ لہذا کسی شخص کا شرعی اسباب کو خاطر میں نہ لانا اور کلی طور پر حس پر انحصار کرنا صحیح نہیں اور نہ ہی شرعی اسباب کے معاملے میں اس غلو کو کہ حس کا انکار ہو مستحسن کہا جاسکتا ہے۔
پانچويں بات:
زمینی اور سائنسی حقائق بھی اس مسئلے کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں جیساکہ :
۱)-زمین میں بعض جگہوں پر گرمی اور بعض جگہوں میں سردی کا معاملہ متفق علیہ ہے اگر محض اس کی وجہ سورج کا زمین سے قرب و بعد کو قرار دیا جائے تو پھر ایسا کیوں ہے
۲)-زمین کے پہاڑی سلسلوں میں سردی کا ہونا باوجود اس کے کہ وہ بلندی کی وجہ سے سورج کے قریب ہوجاتے ہیں
۳)-زمین کے مختلف علاقوں کے درجہ حرارت میں فرق ہونا ۔
۴)-خلا کے درجہ حرارت اور زمین کے درجہ حرارت کے درمیان فرق ۔
اس قسم کے سائنسی سائنسی ، مشاہداتی حقائق سے واضح ہوجاتا ہے کہ سردی یا گرمی میں صرف سورج کے قرب و بعد کا اثر نہیں بلکہ زمین کا اپنا بھی ایک درجہ حرارت ہوتا ہے موسم کی حرارت پر اثر انداز ہوتا ہے۔