حديث كى كتابت ميں كافى تاخير ہوئی !

حديث كى كتابت ميں كافى تاخير ہوئی !


وضاحتِ شبہ:
کہا جاتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانہ اقدس میں لکھائی کا رواج عام نہیں تھا اور احادیث کی جمع و تدوین رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کے دو یا اڑھائی سو سال بعد اس وقت ہوئی جب امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابو داؤد، امام ترمذى وغیرہ نے احادیث جمع کرنے کا کام شروع کیا، لہٰذا ذخیرہ حدیث تاخير سے جمع ہونے كى وجہ سے قابل اعتماد نہیں۔
جواب شبہ

 

پہلى بات:
ہم اس بات کو تسليم  نہیں کرتے کہ حدیث لکھنے کا سلسلہ بڑی  تاخير سے شروع ہوا، ذیل میں ہم بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم کے اسماء گرامی درج كر رہے ہیں جو دربار ِ رسالت کے مستقل کاتب تھے: حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابان بن سعید، حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت ابو خزیمہ بن أوس، حضرت ابو سفیان، حضرت أبي بن کعب، حضرت ارقم بن ابی ارقم، حضرت بریدہ بن الحصیب، حضرت خالد بن الولید، حضرت خزیمہ بن ثابت، حضرت زیبر بن عوام، حضرت زید بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن الارقم، و ديگر رضى اللہ عنہم.

رسول اکرم ﷺ ان سے حسب ضرورت مختلف قبائل سے معاہدے یا خطوط یا دینی مسائل لکھوانے کی خدمات لیا کرتے تھے، ان صحابہ کی الگ الگ ڈیوٹی کا مفصل تذکرہ کتب تاریخ اور كتب حديث میں موجود ہے.

دوسرى بات:
حدیث کی تاریخ اور اس کی کتابیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ  مسلمانوں کا کوئی دور حدیث شريف  لکھنے سے خالی نہیں تھا،  حديث لکھنے کا آغاز درحقيقت  رسول اللہ ﷺ  کے دور سےہی ہو چكا تھا  جب آپ ﷺ نے اپنے بعض صحابہ کو  احاديث لکھنے کا حکم دیا، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے میں جو کچھ سنتا وہ سب لکھ لیا کرتا تھا تاکہ اسے حفظ کر لوں ۔ تو ( بعض ) قریشیوں نے مجھے منع کیا ۔ انہوں نے کہا : آپ  جو سنتے ہیں ہر  بات  لکھ لیتے ہیں ، حالانکہ رسول اللہ ﷺ ایک انسان ہیں غصے اور خوشی ( دونوں حالتوں ) میں گفتگو کرتے ہیں  ۔میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے عرض کی ۔ تو آپ ﷺ نے اپنی زبان کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ” لکھا کرو ، قسم ہے  اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس سے سوائے حق کے اور کچھ نکلتا ہی نہیں ہے ۔“ (سنن ابو داؤد :3646)
اسى طرح فتح مكہ كے موقع پر آپ ﷺ نے مكہ معظمہ كى حرمت اور لوگوں كو قتل وغارت گرى سے بچانے کے لیے سخت ہدايات كيں، اس خطبہ كى اہمیت كے پيش نظر يمنى صحابى حضرت ابو شاه نے اسے لكھنے كى خواہش ظاہر کی تب رسول الله ﷺ نے فرمایا: ’’ابو شاہ کے لیے لکھو‘‘ ۔( صحيح بخارى :   2434 ،صحيح   مسلم :1355)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ ابوشاہ کے قصہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی طرف سے حدیث لکھنے کی اجازت عطا فرمائی ۔( فتح البارى:1/209)
اور امام بخاری روايت كرتے ہیں كہ ہمام بن منبہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: "رسول  اللہ ﷺکے صحابہ میں سے مجھ سے زياده حدیثیں  بيان كرنے والا کوئی نہیں تھا سوائے عبداللہ بن عمرو كے کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا”۔
آپ ﷺ نے بادشاہوں اور مختلف قوموں  كے بڑوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے تحريريں لکھیں۔  اور اپنے امراء اور گورنروں كى رہنمائى كے ليے بھی لكھا كرتے تھے۔  جس میں مقدار زکوٰۃ، خراج اور ديت کی مقدار  وغيره بیان  کی جاتی تھی ۔
چنانچہ اس بارے ميں كوئى شک نہيں كہ  حدیث نبوی لکھنے  کا آغاز عہد نبوی ﷺ میں ہوا۔

تیسرى بات:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین   کے حافظے بڑے  مضبوط تھے بلکہ اس دور  میں اکثر لوگوں کے حافظے بہت  اچھے ہوتے تھے ۔ اس دور کے لوگ  سینکڑوں اشعار ، نسب نامے قبائل كے نام وغیرہ زبانی یاد رکھتے تھے ديكھیں كتاب: الحث على حفظ العلم للحافظ ابن الجوزي، اور كتاب (الحفظ –أهميته، عجائبه-) للشيخ عبد القيوم السحيباني. امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حديث ياد كرنے والے حافظوں میں سے ایک شخص پانچ لاکھ احادیث حفظ كيا کرتا تھا۔ المدخل إلى الإكليل (ص35). ان خوبیوں کی بدولت صحابہ كرام كو اكثر اوقات احادیث لکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، اسى طرح انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی احاديث مباركہ اور قرآن مجيدکو حفظ کیا اور اپنے سے بعد میں  آنے والوں تک ایمانداری سے پہنچایا۔
اور حديث كے راویوں کا اپنے حافظہ پر بھروسہ  کرنا ان کی طرف سے غفلت کی وجہ سے نہیں تھا كہ ہمیں ان کی بيان كرده احاديث میں شک ہو! بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ حدیث سیکھنے کا یہی بہترین طریقہ ہے کہ اسے ياد كيا جائے 
خطیب بغدادی فرماتے ہیں: ” جن حضرات نے سنت كو قرآن كے ساتھ لكھے جانے كو ناپسند كيا وه اس لیے تھا كہ کتاب الله کے ساتھ كسى اور شے كو رتبہ ميں برابرى نہ دے دى جائے يا قرآن سے دورى نا ہو جائے جبكہ آپﷺ  نے لوگوں کو احاديث ياد کرنے کا حکم اس ليے ديا  كہ عہد نبوى قريب تھا اور ياد نا كرنے سے حفظ كى صلاحيت میں بھی خلل پڑتا ہے، یہاں تک کہ یہ تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔” (تقیید العلم ص۵۷)
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عرب کے لوگ پڑھے لکھے نہ  تھے اور اس دور میں لکھنے کے  لوازمات بہت محدود تھے ، اس ليے ان كا اكثر دارومدار  زبانی ياد كرنے پر تھا۔اور جوں جوں دنیا  میں لکھنے کا رجحان بڑھا اور ہر شے کو لکھ کر محفوظ کیا جانے لگا تب سے درجہ بدرجہ لوگوں کے حفظ میں کمی آرہی ہے۔ 

چوتھى بات:
لوگوں كا مشاہدہ  اور عقل بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ لوگ مشہور و معروف شخصیات کے اقوال  و گفتگو کو قلمبند کرنے کا خوب اہتمام كرتے ہیں تو  بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کائنات کی سب سے عظیم شخصیت محمد رسول اللہ ﷺ ہوں اور  صحابہ کرام  رضوان اللہ علیھم اجمعین آپ ﷺ سے بے حد محبت کرتے ہوں  مگر جو کچھ انہوں نے آپ ﷺ كى محفل ميں سنا اور جس كا مشاہدہ کیا،اس سب کو آئندہ آنے والے لوگوں تک منتقل  کے لیے کوئی اہتمام نہ کریں  یہ بات عقل اور مشاہدہ دونوں کے منافی ہے۔ اور جو شخص صحابہ کرام كى زندگى اور جذبہ ايمانى كو جانتا ہے وه ايسى غفلت كا تصور نہیں كرسكتا، الله تعالى نے فرمايا:

قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ    ( النور:54 )

ترجمہ: کہہ دی جئے: اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو، پھر اگر تم پھر جاؤ تو اس کے ذمے صرف وہ ہے جو اس پر بوجھ ڈالا گیا ہے اور تمھارے ذمے وہ جو تم پر بوجھ ڈالا گیا اور اگر اس کا حکم مانو گے تو ہدایت پاجاؤ گے اور رسول کے ذمے تو صاف پہنچا دینے کے سوا کچھ نہیں۔

پانچوىں بات:
سنت نبوی كے لکھنے میں تاخیر کا تعلق ان کتابوں سے تھا جو صحابہ كرام  کی مسانيد اور فقہی ابواب کى ترتيب سے خاص انداز سےمرتب كى گئی تھیں، جیسے: امام مالک رحمہ اللہ کى "المؤطا” اور "صحیح بخاری” اسى طرح "سنن ابو داؤد” وديگر۔البتہ احادیث كو بنا کسی خاص ترتیب كے لكھنے كا عمل  تو یہ صحابہ وتابعین کے دور ميں مشہور و معروف تھا۔جیسا کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص کا "الصحیفہ الصادقہ” اور جابر بن عبداللہ کا "الصحيفہ” كا ذكر ہمیں ملتا ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم نے اسلام کے آغاز میں جو احاديث لكھیں ڈاکٹر محمد عجاج الخطیب نے  ان سب صحابہ  كى كتابوں اور صحيفوں كى  ایک بڑى تعداد ذکر كى ہے۔( ديكھیں: السنة قبل التدوين :(ص343-362) 
یہی اہتمام  تابعين عظام  کے دور میں بھی رہا ۔ جيسے ہمام بن منبہ كى احاديث جو انہوں نے حضرت ابو ہريره سے سن ركھی تھیں۔( ديكھیں: السنة قبل التدوين :ص343-362)   اس طرح كتابت حديث كا اہتمام ہر دور میں جارى رہا اور وقت کے ساتھ ساتھ وسعت اختيار كرتا گیا۔

چھٹى بات:
خود قرآن کریم جو کہ اسلام کا بنیادى ماخذ ہے، رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں  لکھا نہیں گیا تھا، بلكہ اس كو حضرت ابو بكر اور عمر رضى الله عنہما كے دور ميں جمع كرنا شروع كيا گیا  اور حضرت زيد بن ثابت رضى الله عنہ جو نبی کریم کی زندگی میں وحی لكھنےوالوں میں سے ایک تھے ان كو جب يہ ذمہ دارى سونپى گئی تو وه کہنے لگے كہ ہم کیسے ایسا عمل کر سکتے ہیں جو نبی ﷺ نے خود نہیں  كيا؟ يہ ہی بات ابوبکر  رضی اللہ عنہ نے عمر  رضی اللہ عنہ سے  کہی تھی جس وقت جناب عمر رضی اللہ عنہ  نے انہیں قرآن جمع کرنے كا مشوره ديا۔ليكن ابوبکر صديق زید بن ثابت  کو مناتے رہے یہاں تک كہ ان كو جمع قرآن پر آمادہ کرلیا۔” اس وقت زیدبن ثابت نے کہا: الله کی قسم! اگر  احد پہاڑ کو منتقل کرنے یا پہاڑوں میں سے کسی ایک کو ہلانے  كا كام مجھے سونپا جاتا تو وه  مجھ پر قرآن مجيد کو جمع کرنے سے زياده آسان ہوتا۔”
دراصل قرآن مجيد كو ايک مصحف ميں جمع كرنے كى وجہ  حفاظ  قرآن صحابہ كرام كى جنگوں میں شہادت كى كثرت تھا تو خدشہ ہوا کہ قرآن مجيد  سكھانے والے صحابہ كم نہ  رہ جائيں چنانچہ يہ عمل شروع كيا گيا۔
 جب قرآن مجید کچھ عرصہ تاخير سے ايک جگہ جمع ہونے كى وجہ سے ناقص اور قابل اعتراض نہیں تو احادیث بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہیں، اس کی حفاظت كا بندوبست بھی اللہ رب العالمین نے چنے ہوئے نيک بندوں كے ذريعہ سے فرمايا۔

ساتويں بات:
صرف حديث نبوى ﷺ واحد شے نہیں جس كى تدوين وترتيب تاخير سے شروع ہوئی۔ بلکہ ایسا اكثر علوم وفنون جيسے تفسیر، فقہ، لغت عربى وغيره ميں بھی ہوا ۔ اس كے باوجود ان علوم كے مقام اور اہميت پر اس سے کوئی حرف نہیں آیا۔ احاديث كى جانچ پڑتال تو ديگر علوم سے كہیں زياده اہتمام سے ہوئی ہے۔

آخرى بات:
محدثين نے حديث كى كتابت كا كيسا اہتمام كيا اور احاديث لکھنے ميں كن طور طريقوں اور آداب واصطلاحات كو استعمال كيا اس بارے ميں علوم حديث پر لكھی جانے والى قديم وجديد كتابوں ميں پورا ايک باب: "كتابة الحديث وضبطه” کے عنوان سے قائم كيا جاتا ہے، اس باب كو ديکھنے سے محدثين كی كتابت حديث كے تعلق سے كى گئی جھود مزيد نكھر كر سامنے آجاتى ہیں۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے