حدیث لکھنے سے نبی ﷺ نے ممانعت فرمائى!
وضاحتِ شبہ:
صحیح مسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری طرف سے نہ لکھو، اور جس شخص نے میری طرف سے قرآن مجيد کے علاوہ كچھ لكھا اسے مٹا دے”۔ (صحیح مسلم: 3004)
چنانچہ اگر حديث دين کے ضرورى امور میں سے ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اسے لکھنے اور جمع کرنے کا حکم دیتے جیسا کہ وہ قرآن مجيد کے ساتھ کیا، نا كہ اس کو مٹانے کا حکم دیتے!
جواب شبہ
گزشتہ بعض جوابات ميں اس بات كا ذكر ہوچكا ہے كہ آپ ﷺ نے احاديث مباركہ كے لكھنے كا حكم كئى ايک صحابہ كو ديا ، تو جہاں ہمیں یہ حدیث ملتی ہے جس سے يہ سمجھ آر ہا ہو كہ احاديث نا لكھى جائیں وہیں بہت ساری احاديث لكھنے کے بارے میں بھی ملتی ہیں جو كہ بالكل واضح ہيں جن ميں سے كچھ درج ذيل ہيں:
پہلى بات:
1- ابو ہریرہ رضى اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو فتح مکہ سے نوازا تو نبی ﷺ لوگوں میں کھڑے ہوۓ اور اللہ تعالی کی حمدوثنا بیان کرنے کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا، تو اہل یمن میں سے ايک شخص ابو شاہ کھڑا ہوکر کہنے لگا اے نبی ﷺ مجھے یہ لکھ دیں ، تو نبی ﷺ نے فرمایا ابوشاہ کو لکھ دو ۔ صحیح بخاری: 2254، صحیح مسلم :1355 )
2- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں ہر اس حدیث کو جو رسول اللہ ﷺ سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کر دیا، اور کہا: کیا تم رسول اللہ ﷺ سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو؟ حالانکہ رسول اللہ ﷺ بشر ہیں، غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا“۔(سنن ابو داود: 3646)
3- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا۔ مگر وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔ (صحيح بخارى: 113)
مذكوره احاديث میں صراحتاً لکھنےکا حکم اور اس بات كا واضح ثبوت ہے كہ صحابہ كرام احاديث كو لكھا كرتےتھے۔
دوسرى بات:
مذكورہ حديث كے مختلف جوابات اہل علم نے ذكر کیے ہیں، جن ميں سے چند درج ذیل ہیں:
1- اس حديث ميں قرآن اور حديث كو ايک ساتھ ايک صحيفے (دفتر) میں لکھنے سے منع كيا گیا تاكہ قرآن اور حديث دونوں كا آپس ميں خلط نا ہوجائے ۔
2- حديث كى كتابت كى ممانعت ان كے ليےتھی كہ جو قرآن وحديث ميں فرق نہ كرسكیں اور اجازت ان كے ليے جو ان دونوں ميں فرق كرسكیں۔
3- ممانعت اس وقت کے لئے تھی جب تک قرآن مجيد سے اختلاط کا شبہ تھا اور جب وہ شبہ دور ہوا تو لکھنے کی اجازت دے دی گئی بلکہ اس کا واضح حکم بھی دیا گیا۔ ديكھیں: شرح مسلم للنووى (18 /129)، فتح البارى لابن حجر (1/208).
تيسرى بات:
نبی ﷺ کے وہ خطوط مبارکہ جو آپ نے سرداروں کو بھیجے یا اپنے بعض مقرر کردہ گورنر صحابہ کو لکھوا کر بھیجے جن میں بعض احکامات کا ذکر تھا (جيسے كہ: کتاب الصدقہ، صحیفہ حضرت عمرو بن حزم) یہ سنت کے لکھے جانے پر واضح دلیل ہے۔
چوتھى بات:
مذكوره حديث ميں موجود حكم اگر مكمل طور پرحديث لكھنے کی ممانعت كا ہوتا تو مذکورہ حدیث ہم تک کیسے پہنچی؟ اس ليے مذكوره حديث ہی حديث كی كتابت كی واضح دليل ہے۔
پانچوىں بات:
صحابه كرام رضوان الله عليهم اجمعين كے صحائف، حدیث کی کتابت پر واضح دليل ہے جن ميں سرفہرست "صحيفہ صادقہ” ہے جو كہ حضرت عبد الله بن عمرو بن العاص کا لکھا ہوا تھا، اسى طرح حضرت علی كا صحيفہ جيسا كہ صحيح بخاری ميں ہے :
علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں اینٹ کے بنے ہوئے منبر پر کھڑا ہو کر خطبہ دیا۔ آپ تلوار لیے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: واللہ! ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوا اس صحیفہ کے۔ پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا۔ ( صحيح بخاری:7300)
چھٹی بات:
كسی بھی چیز کی حفاظت کا دارومدار صرف کتابت پر نہیں ہوتا بلکہ حفاظت کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ یاد کرنا بھی ہے اور عرب کی مسلّم خصوصيات میں ان كا حافظہ قابل ذكر ہے اور اسی ليے ان كا زياده تر دارومدار بھی اسی پرتھا ۔