حدیث میں عورت کو کم عقل اور کم دین کہا گیا !

وضاحتِ شبہ:
ايک حدیث میں عورت کو کم عقل اور کم دین کہا گیا. ديكھیں: صحيح بخارى ( 304)، و صحيح مسلم ( 240). اور يہ  عورت كے عزت و احترام كے منافى ہے۔

جوابِ شبہ

 

پہلى بات:
اس حديث ميں جس جملے كو قابلِ اعتراض سمجھا جا رہا ہے اسى حديث ميں اس كى وضاحت موجود ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے عورت كى عقل کی کمی كو عورت كى بعض معاملات میں آدھی گواہی ہونا بيان فرمايا جو از روئے قرآنِ مجيد ثابت ہے۔ فرمايا ربِ تعالى نے:

وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنْ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى (البقرة : 282) 

ترجمہ :اور اپنے مردوں میں سے دو گواہوں کو گواہ بنا لو پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے جنھیں تم گواہوں میں سے پسند کرتے ہو (اس لیے) کہ دونوں میں سے ایک بھول جائے تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے.

اور عورت كے دین کی کمی کی وجہ اس كا ايامِ ماہوارى ميں عبادت كى مقدار ميں كمى ہے كيونكہ وہ نماز روزه انجام نہیں دے پاتى۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ کریم ﷺ عیدُ الاضحی یا عیدُ الفطر کے دن عیدگاہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ عورتوں کے پاس سے گزرے اور فرمایا: اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کرو کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔ انھوں نے کہا: یا رسول اللہ! ایسا کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔ عورتوں نے عرض کی کہ ہمارے دین اور ہماری عقل کی کمی کیسے ہے یا رسول اللہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بس یہی اس کی عقل کی کمی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا: کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ عورتوں نے کہا: ایسا ہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔ (صحيح بخارى : 304)
جو کچھ عورت کی گواہی كے بارے ميں ذكر کیا گیا ہے وہ مالی معاملات میں گواہی کے حوالے سے ہے۔ جیسے خريد و فروخت، وكالت، ضمانت وغيره لیکن دوسرے معاملات جن میں انسانی جذبات کا عمل دخل کم ہو اور  معاملے کا انحصار محض ذہانت اور حافظے پر ہو تو اس میں عورت کی گواہی مرد کی طرح ہی ہے۔ اسى لیے اسلام ميں خواتين نے جو احاديث بيان كىں وہ قبول كى گئیں، اسى طرح اولاد كى پیدائش اور رضاعت کے ثابت کرنے میں ایک عورت کی گواہی کو بھی قبول کیا گیا۔ (دیکھیں : صحيح بخارى : 88)
اس بارے ميں ايک بنيادى اصول امام زہرى نے ذكر فرمايا ہے۔ وہ كہتے ہیں: (سنت سے ثابت ہے كہ جن معاملات ميں عورتيں زيادہ سمجھ ركھتى ہیں اس ميں اكيلى عورت كى بات كو ہی كافى سمجھا جائےگا)۔ (ملاحظہ ہو:   المحلى: 9/396)
امام ابنِ تيميہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (جس قسم كے معاملات ميں بھولنے کا اندیشہ نا ہو ان معاملات ميں عورت كى گواہی آدھى نہیں۔ خواتين جو امور اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہیں يا اپنے ہاتھ سے چھوتی ہیں یا اپنے کانوں سے سنتی ہیں جیسے کہ پیدائش، نشو نما، دودھ پلانا، ايامِ ماہوارى وغيره یہ عام طور پر بھولتے نہیں اور نہ ہی ان معاملات كى سمجھ بوجھ کے ليے کمالِ عقل کی ضرورت ہوتی ہے جيسے ادھار وغيره كے معاملات ہوتے ہیں).  (ملاحظہ ہو: الطرق الحكمية لابن القيم ص : 400)
امام  ابن قيم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’نيک عورت سچائی، امانت داری اور ديانت دارى میں مرد کی مانند ہوتی ہے لیکن اس كے بھول جانے كے امكان كے پیشِ نظر اس كے ساتھ ايک اور گواہ كو ركھا گيا تاكہ اسے تقویت (سَپورٹ) ملے۔ اس طرح اس كى گواہی اكيلے آدمی سے زیادہ طاقتور بن جاتی ہے‘‘ ( ملاحظہ ہو: الطرق الحكمية ص : 430)

دوسرى بات:
مذکورہ کمی الله تعالى کی مرضی سے واقع ہوئی ہے اس میں عورتوں پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا نہ ہی اس حدیث میں عورتوں کی تذلیل یا تضحیک كى گئی بلکہ ان کے لیے ايک عذر پيش كيا گيا ہے كيونكہ ہر عقلمند مرد و عورت کے مابين فرق سے واقف ہوتا ہے۔ عورت كى جسمانی اور جذباتی تشکیل مرد سے مختلف ہے لہٰذا اس حديث ميں ہر ایک کو اپنی مہارت کے میدان میں کام کرنے كى طرف تلقين ہے تاکہ مرد حمل اور دودھ پلانے كے امور میں دخل انداز نہ ہوں اور خواتين جہاد، دشمنوں، خلافت اور امارت کے امور میں نہ آئيں۔

تيسرى بات:
اسلام نے عورت کو عزت دی اور اسے مناسب مقام دیا۔ مرد و عورت کے احكام و مسائل ميں ويسے بھی فروق بہت كم ہیں۔ قرآن مجيد ميں سورۃ النساء (خواتين) کے نام سے ایک پوری سورت نازل ہوئی اور عورتوں کو ماں، بیوی اور بیٹی کے روپ ميں عزت و احترام كا اونچا مقام عطا كيا۔ يہ سب امور عورت كے عزت و  وقار پر واضح ثبوت ہیں۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے