حدیث میں ہے کہ شر (بُرائى) اللہ تعالى کی طرف سے نہیں! یہ بات تو قرآن مجيد سے ٹكراتی ہے۔

حدیث میں ہے کہ شر (بُرائى) اللہ تعالى کی طرف سے نہیں! یہ بات تو قرآن مجيد سے ٹكراتی ہے۔

وضاحتِ شبہ:
قرآن کریم میں ہے کہ ہر معاملے کا واقع ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جبکہ حدیث میں ہے کہ: وَالشَّرُّ لیس إِلَیك ( صحیح مسلم ) ترجمہ: "اے الله! شر (بُرائى) کی نسبت تیری طرف نہیں”، چنانچہ یہ حدیث قرآن مجيد سے ٹکراتی ہے۔ لہذا ناقابل اعتبار ہے۔
جوابِ شبہ

پہلى بات:
یہ حدیث قرآن کریم کے مخالف نہیں ہے قرآن کریم میں بھی شر کے حوالے سے یہ بیان موجود ہے ۔

وَّاَنَّا لَا نَدْرِيْٓ اَشَرٌّ اُرِيْدَ بِمَنْ فِي الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا ( الجن:10 )

ترجمہ: اور یہ کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اس سے اہل زمین کے حق میں برائی مقصود ہے یا ان کے رب نے ان کے لئے بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے۔

وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ( سورۃ الانعام:101 )

ترجمہ: اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہر شے کا خالق اللہ تعالیٰ ہے جس میں تمام چیزیں خير اور شر داخل ہیں۔

دوسرى بات:
 اہلِ علم نے اس حدیث کے معانی کے بارے میں مختلف توضیحات کی ہیں انکے مطالعہ سے واضح ہو جاتا ہے یہ حدیث قرآن کریم کے مخالف نہیں۔ 
امام نووی رحمہ اللہ [والشر لیس إلیك] کی توجیہ و توضیح كرتے ہوئے فرماتے ہیں :
” تمام امور اللہ کے ارادے اور حكم سے ہی ہوتے ہیں اور ہر شے خواہ وہ خیر والی ہو یا شر والی اسی کی مخلوق ہے۔ اس لیے حدیث کے ان کلمات کی توجیہ کے حوالے سے اہل علم کے پانچ اقوال ملتے ہیں جو یہ ہیں”۔

1۔ شر کے ذریعے تیرا (الله كا) تقرب حاصل نہیں کیا جا سکتا۔  یہ قول نضر بن شمیل، خلیل بن أحمد، یحی بن معین، إسحاق بن راھویه، الأزھری اور أبو بکر ابن خزیمہ رحمھم اللہ سے منقول ہے۔

2۔ امام مزنی و دیگر نے یہ توجیہ کی ہے کہ انفرادی طور پر شر کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی جا سکتی ۔ یعنی یہ نہیں کہا جائے گا کہ اے بندروں اور خنزیروں کے خالق! اے شر کے خالق! اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق اور رب ہے۔ یعنی عمومی کلمات میں تو شر کو داخل کیا جا سکتا ہے علیحدہ سے بالخصوص شر کا ذکر كر کے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا جائز نہیں۔

3۔ یہ بھی مفہوم بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی طرف شر نہیں چڑھتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف کلمات طیبہ ہی چڑھتے ہیں۔

4۔ شر اللہ تعالیٰ کی نسبت سے شر نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے شر کو کسی حکمت کے تحت ہی پیدا کیا ہے شر تو مخلوق کی نسبت سے ہے۔

5۔ امام خطابی کہتے ہیں: "والشر لیس إلیک” بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ کسی شخص کو اسكی قوم میں شمار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ: "فلان إلی بني فلان” یعنی فلاں شخص فلاں قوم میں سے ہے۔ (شرح صحیح مسلم  للنووی : 3/ 1361 ، 1362)

امام طحاوی فرماتے ہیں : ’’ [والشرلیس الیک] یعنی اے اللہ ! تو نے صرف شر پیدا نہیں کیا بلکہ تو نے جو بھی پیدا کیا وہ حکمت سے خالی نہیں۔ اس حکمت کے لحاظ سے وہ بھی خیر ہی ہے لیکن اس میں بعض لوگوں کے لیے شر ہو سکتا ہے۔ یہ جزوی نوعیت کا شر ہے جو بندے کی نسبت سے ہے جبکہ اللہ تعالیٰ مطلق طور پر شر یا کلی طور پر شر کی نسبت سے پاک ہے۔ [تیری طرف شر نہیں] کا یہی معنی ہے۔ (شرح العقیدۃ الطحاویۃ از ابن ابی العز الحنفی، ص : 362) ایک سوال کے جواب میں علامہ حافظ بن أحمد حکمی کہتے ہیں : ’’ باوجود اس کے کہ ہر شے کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام افعال اللہ کی ذات سے متصف ہونے کی حیثیت سے اور اللہ تعالیٰ سے صادر ہونے کی حیثیت سے صرف اور صرف خیر پر مشتمل ہیں۔ ان میں کسی طرح سے بھی شر کا پہلو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ عدل پر ، ہر فعل حکمت و عدل پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالى ہر چیز کے لیے اس کے شایانِ شان معاملہ فرماتا ہے۔ اور اگر کسی شے میں شر  موجود ہے تو وہ بندے کی نسبت سے ہے۔ اس کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

 وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ( الشوری:30 )

ترجمہ: اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے تو وہ تمہارے اپنے ہی کاموں کی وجہ سے آتی ہے اور وہ (اللہ) بہت سے گناہ تو معاف کر دیتا ہے۔

نیز فرمانِ الہی ہے :

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْـــًٔـا وَّلٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ ( یونس:44 )

ترجمہ: اللہ تو لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

   (200 سوال فی العقیدۃ الاسلامیۃ ، از حافظ بن أحمد حکمی ، ص 45 )
الشیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
افعال اللہ میں کبھی بھی شر نہیں ہو سکتا اس لیے کہ شر میں حالت اور انجام کے لحاظ سے خیر نہیں ہو سکتی اور اللہ کے افعال خیر سے خالی ہوں یہ نہیں ہو سکتا۔ البتہ ایک جہت سے ایسا ہو سکتا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جسے بطورِ شر کے مقدر کیا ہے اس کی انتہا و انجام اچھا ہوگا۔ اور ایک قوم کے لیے شر ہوگا باقیوں کے لیے خیر کا باعث ہوگا۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ جب بہت بارش نازل فرماتا ہے جس سے  کسی انسان کی فصل تباہ ہو جاتی ہے لیکن دوسری طرف زمین کو اور دیگر لوگوں کو بھی تو فائدہ پہنچتا ہے ۔ تو جنہیں فائدہ پہنچا ہے یہ بارش ان کے لیے خیر والی ثابت ہوئی اور جنہیں نقصان ہوا انکے لیے اس میں شر کا پہلو نظر آیا۔ ایک جہت سے اس میں شر ہے تو ایک جہت سے خیر ہے۔
اسی طرح شر جسے اللہ نے انسان کے لیے مقدر کیا ہے وہ حقیقت میں خیر ہی ہے۔ (شرح ریاض الصالحین للشيخ ابن عثیمین ، 1/68 )
اہلِ علم کے ان اقوال اور توضیح سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ حدیثِ مبارك قرآن کریم سے نہیں ٹکراتی۔

 

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے