وضاحتِ شبہ:
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ايک حدیث میں ہے آيا کہ مکھی کے ایک پر میں بیماری اور ایک پر میں شفا ہے ۔ (صحيح بخارى 3320)
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مکھی جو جراثیم کا باعث بنتی ہے اسے علاج قرار دیا جائے۔ اور بیماری اور علاج کو اللہ تعالیٰ ایک ہی شے میں جمع کردے۔
جوابِ شبہ
پہلی بات :
شریعت کے احکام خالق كائنات کی طرف سے ہیں اور عقل خود مخلوق ہے۔ بھلا خالق کے فیصلوں کو صحیح یا غلط قرار دینے کے لیے عقل کو معیار بنانا کیسے صحیح ہوسکتا ہے ؟ نیز ہر ایک کی عقل مختلف ہے پھر کس کی عقل کا اعتبار ہوگا۔ نتیجتاً دینی امور درھم برھم ہوکر رہ جائیں گے ۔ اس سلسلے میں کیا ہی پیاری بات کہی ہے امام ابن قتیبہ نے ،وه فرماتے ہیں :
’’دینی امور کى صرف مشاہدے سے تصديق کرنے والوں نے جانوروں کے بولنے ، پرندوں کی تسبیحوں کا، مکھی کے پر میں بیماری اور دوسرے میں شفاء کا انکار کردیا اور حدیث کا فہم نہ ہونے کی وجہ سے اعتراض کیا کہ ایک قیراط احد کے برابر کیسے ہوسکتا ہے ؟ بیت المقدس کلام کیسے کرسکتا ہے ؟ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کیسے کھاتا پیتا ہے ؟ اس قسم کا اعتراض کرنے والا دین سے کھسک چكا ہے اور احادیث رسول ﷺ ، اور فہم صحابہ کا منکر ہے اور جس نے کسی ایک حدیث کو بھی جھٹلایا اس نے ساری احادیث کو جھٹلادیا۔
(تأویل مختلف الحدیث ص334 )
دوسری بات :
حدیث ذباب کے بارے میں یہ کہنا کہ اسے صرف ابوہريره نے بیان کیا ہے غلط ہے یاصرف صحیح بخاری صحیح مسلم کی حدیث قرار دے کر صحیحین پر انگلی اٹھانا غلط ہے کیونکہ اس حدیث کو متعدد صحابہ نے بیان کیا ہے مثلا یہ حدیث ابو سعید الخدری سے مروی ہے جیسا کہ سنن النسائی ، سنن ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے ۔
سیدنا انس سے بھی مروی ہے جیساکہ مسند البزار ، المعجم الاوسط للطبرانی وغیرہ میں ہے ۔
پھر مزید یہ سیدنا ابوہريره سے بھی تابعین کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے ۔
تیسری بات :
جس حديث كو عقل کے خلاف سمجھ کر مورد اعتراض ٹھہرایا جارہا ہے اسے ميڈيكل سائنس بھی تسلیم کرچکی ہے لہذا اسے قابل اعتراض قرار دینا تعجب كى بات ہے۔
تاریخ میں مکھیوں کے ذریعے سے مختلف علاج ہوتے رہے ہیں اور آج بھی مختلف قسم کی سرجریوں میں مکھیوں کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے ، بلکہ اس قسم کے علاجوں کے لیے مکھیوں کو خصوصی طور پر پالا بھی جاتا رہا ہے۔ سائنس نے مکھیوں میں جراثیم کش بیکٹریا کا بھی انکشاف کیا ہے۔ بیکٹریا کے زہریلے مادوں سے علاج ، علاج کی وہ قسم ہے جسے اس دور میں اینٹی بائیٹک کے نام سے جانا جاتا ہے۔
(فتاوی یوسف القرضاوی :1/64)
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہٰیں :
وأما المعنى الطبي، فقال أبو عبيد: معنى امقلوه: اغمسوه ليخرج الشفاء بضمها منه، كما خرج الداء، يقال للرجلين: هما يتماقلان، إذا تغاطا في الماء.
واعلم أن في الذباب عندهم قوة سمية يدل عليها الورم، والحكة العارضة عن لسعه، وهي بمنزلة السلاح، فإذا سقط فيما يؤذيه، اتقاه بسلاحه، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم أن يقابل تلك السمية بما أودعه الله سبحانه في جناحه الآخر من الشفاء، فيغمس كله في الماء والطعام، فيقابل المادة السمية المادة النافعة، فيزول ضررها، وهذا طب لا يهتدي إليه كبار الأطباء وأئمتهم، بل هو خارج من مشكاة النبوة، ومع هذا فالطبيب العالم العارف الموفق يخضع لهذا العلاج، ويقر لمن جاء به بأنه أكمل الخلق على الإطلاق، وأنه مؤيد بوحي إلهي خارج عن القوى البشرية.
وقد ذكر غير واحد من الأطباء أن لسع الزنبور والعقرب إذا دلك موضعه بالذباب نفع منه نفعا بينا، وسكنه، وما ذاك إلا للمادة التي فيه من الشفاء، وإذا دلك به الورم الذي يخرج في شعر العين المسمى شعرة بعد قطع رؤوس الذباب، أبرأه ( زاد المعاد لابن القیم 4/101 )
ترجمہ: جہاں تک اس حديث كا طبی حوالہ سےتعلق ہے، تو حديث میں مكھی کے دوسرے پر كو ڈبونے كا حكم ہے تاکہ دوسرے پر میں شامل کرنے سے شفا نکلے جیسا کہ پہلے سے بیماری نکلی۔
ڈاكرز نے مكھی ميں زہريلى قوت كو تسليم كيا ہے، اسى ليے اس كے کاٹنے سے ورم اور خارش ہوجاتى ہے ۔ اس کے پر اس کے لیے ایک ہتھیار کی طرح ہیں تو جب وه کسی ایسی شے میں گرتی ہے جس میں گرنا اس کے لیے نقصان دہ ہو تو وہ اپنے پروں کے ذریعے سے بچتی ہے۔
ابتدائی طور پر اس علاج کی طرف کبار اطباء نے رہنمائی نہیں كى بلکہ یہ مشکوۃ نبوت سے جاری ہونے والا فیض ہے۔ البتہ صاحب علم ، ماہر طبیب تواضع (عاجزي) کے ساتھ اسے تسلیم کرتا ہے ۔بعض اطباء نے بیان کیا ہے کہ بچھو اور بھڑ کے کاٹنے پر گھریلو مکھی مل دی جائے تو اس کی وجہ سے آرام آجاتا ہے جو اس کے پروں میں پنہاں ہے۔
مختصر صحیح بخاری کے انگریزی مترجم ڈاکٹر محمد محسن خان لکھتے ہیں :
’’طبی طور پر اب یہ معروف بات ہے کہ مکھی اپنے جسم کے ساتھ کچھ جراثیم اٹھائے پھرتی ہے جیساکہ نبی ﷺ نے 1400 سال پہلے بیان کیا جب انسان جدید طب کےمتعلق بہت کم جانتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ عضویے (Organisms) اور دیگر ذرائع پیدا کیے ہیں جو ان جراثیم کو ہلاک کردیتے ہیں ، مثلاً پنسلین ، پھپھوندی اور سٹیفائلو کوسائی جراثیم کو مار ڈالتی ہیں۔
حالیہ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکھی بیماری (جراثٰم ) کے ساتھ ساتھ ان جراثیم کا تریاق بھی اٹھائے پھرتی ہے۔ عام طور پر جب مکھی کسی مائع غذا کو چھوتی ہے تو وہ اسے اپنے جراثیم سے آلودہ کردیتی ہے ، لہذا اسے مائع میں ڈبکی دینی چاہیے تاکہ وہ ان جراثیم کا تریاق بھی اس میں شامل کردے جو جراثیم کا مداوا کرے گا۔ میں نے اپنے ایک دوست کے ذریعے اس موضوع پر جامعہ الازہر ، قاہرہ (مصر ) کے عمید قسم الحدیث شعبہ حدیث کے ساربراہ محمد السمحی کو خط بھی لکھا جنہوں نے اس حدیث اور اس کے طبی پہلوؤں پر ایک مضمون تحریر کیا ہے۔
اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ماہرین خرد حیاتایات (Microbiologists) نے ثابت کیا ہے کہ مکھی کے پیٹ میں خامراتی خلیات (Yeast Cells) طفیلیوں (Parasites) کے طور پر رہتے ہیں اور یہ خامراتی خلیات اپنی تعداد بڑھانے کے لیے مکھی کی تنفس کی نالیوں (Respiratory Tubules) میں گھسے ہوتے ہیں اور ان خیلات کا مواد ان جراثیم کا تریاق ہوتا ہے جنہیں مکھی اٹھائے پھرتی ہے۔ ‘‘ (مختصر صحیح البخاری )
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ حدیث سائنس و عقل کے مخالف نہیں ہے بلکہ قدیم و جدید اطباء کے درمیان علاج کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی رہی ہے ۔
چوتھی بات:
ياد رہے كہ مکھیوں کو برتن میں ڈبونے کا حکم صرف تعلیم کے لیے ہے نہ کہ فرض يا مستحب، اور حدیث میں کبھی اس مشروب كو پینے کا حکم نہیں ہے اور نہ ہی یہ کھانے میں ڈبو کر نکالنے کے بعد اسے کھانے کا حکم ہے، بلکہ یہ ہر اس شخص کے مزاج پر ہے کہ جو اس برتن ميں موجود شے كو كھانا يا پینا چاہتا ہے، اس کے لیے یہ حفاظتى تعليمات ہیں، اور جو اس سے كراہت محسوس كرے وه اسے نہ کھائے، جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر ایمان رکھتا ہو تو اس سے اس کے دین اور ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا.
لہذا اس قسم کے اعتراضات کرنے والے خود علمی طور پر اس سے ناآشنا ہیں اور ذاتی پسند و ناپسند كو دین یا سائنس و عقل کا رنگ دینا چاہتے ہیں۔