کیا امیر معاویہ رضى الله عنہ خود کو خلافت کے زیادہ اہل سمجھتے تھے؟

کیا امیر معاویہ رضى الله عنہ خود کو خلافت کے زیادہ اہل سمجھتے تھے؟

وضاحت شبہ :
ایک حدیث کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ خود كو  سیدنا حسن بن على رضی اللہ عنہ اور ان کے والد سیدنا علی بن ابى طالب رضی اللہ عنہ  یا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے والد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ  خلافت كا اہل سمجھتے  تھے ۔
جواب شبہ

سب سے پہلے پوری حدیث او ر اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: ” دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَنَسْوَاتُهَا تَنْطُفُ، قُلْتُ: قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَيْنَ، فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ، فَقَالَتْ: الحَقْ فَإِنَّهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ، وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ فِي احْتِبَاسِكَ عَنْهُمْ فُرْقَةٌ، فَلَمْ تَدَعْهُ حَتَّى ذَهَبَ، فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ خَطَبَ مُعَاوِيَةُ قَالَ: مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا الأَمْرِ فَلْيُطْلِعْ لَنَا قَرْنَهُ، فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ، قَالَ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ: فَهَلَّا أَجَبْتَهُ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَلَلْتُ حُبْوَتِي، وَهَمَمْتُ أَنْ أَقُولَ: أَحَقُّ بِهَذَا الأَمْرِ مِنْكَ مَنْ قَاتَلَكَ وَأَبَاكَ عَلَى الإِسْلاَمِ، فَخَشِيتُ أَنْ أَقُولَ كَلِمَةً تُفَرِّقُ بَيْنَ الجَمْعِ، وَتَسْفِكُ الدَّمَ، وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ، فَذَكَرْتُ مَا أَعَدَّ اللَّهُ فِي الجِنَانِ، قَالَ حَبِيبٌ: حُفِظْتَ وَعُصِمْتَ ( صحيح بخارى:4108 )

ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ لوگوں کا معاملہ آپ دیکھ رہی ہیں اور اس معاملہ میں میرے لئے کچھ نہیں رکھا گیا ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا موقع پر نہ پہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے۔ آخر حفصہ رضی اللہ عنہا کے اصرار پر عبداللہ رضی اللہ عنہ گئے۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا کہ اس معاملہ میں جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے۔یقیناً ہم اس معاملہ میں اس سے اور اس کے باپ سے زیادہ حقدار ہیں ۔ حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس پر کہا کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے كپڑے سميٹے(جواب دینے کو تیار ہوا) اور ارادہ کر چکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ اس معاملہ کا حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کے لیے جنگ کی تھی۔ لیکن پھر میں ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختلاف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور میری بات کا مطلب میری منشا کے خلاف نہ لیا جانے لگے۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ نعمتیں یاد آ گئیں جو اللہ تعالیٰ نے (صبر کرنے والوں کے لیے) جنت میں تیار کر رکھی ہیں۔ حبیب ابن ابی مسلم نے کہا کہ اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اور بچا لیے گئے ،آفت میں نہیں پڑے۔

پہلی بات:
مذکورہ حدیث کی روشنی میں پہلی بات یہ ہےکہ سیدنا عبداللہ بن عمر کے یہ الفاظ:  ’’ فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ‘‘ ترجمہ: اس معاملہ میں میرے لئے کچھ نہیں رکھا گیا ہے، اس میں حکومت نہ ملنے کا شکوہ نہیں ہے کیونکہ لفظ " الامر” سے مراد حکومت ہی ہو اس کی کوئی واضح دلیل نہیں ، اوراگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ اس سے مراد حکومت ہی ہے تو یہ شکوہ کا اظہار کے لیے نہیں بلکہ  اس اجتماع میں شریک نہ ہونے کی وجہ بتلانا مقصد ہے ۔

دوسری بات:
یہ بات ثابت ہے کہ سیدنا عمر  بن الخطاب رضى اللہ عنہ بھی اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کى خلافت  کو مناسب نہیں سمجھتے تھے حتی کہ جب لوگوں نے عبداللہ بن عمر کی بیعت کرنے کا اظہار کیا تو انہوں نے اس سے منع کردیا ۔(طبقات ابن سعد : 4/151)

یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر اور سیدہ حفصہ کا مکالمہ کس اجتماع کے بارے میں ہے ؟ علامہ ہیثمی نے تو  اسے سیدنا حسن بن على  کی صلح کے موقع کا واقعہ قرار دیا  ليكن شارح بخارى حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے۔ (دیکھیے : مجمع الزوائد :4/242،  فتح الباری : 7/403)

ابن الجوزی اسے بیعتِ یزید بن معاويہ کے وقت کا اجتماع قرار دیتے ہیں اس رائے کی بھی حافظ ابن حجر  نے تردید کی ہے، اور  ان کی اپنی رائے میں یہ جنگ صفین کے وقت  تحکیم کے موقع  کا اجتماع تھا ۔  ديکھیں: ( فتح البارى 7/403)

تیسری بات:
کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خود کو عمر فاروق  رضی اللہ عنہ سے زیادہ اہل سمجھتے تھے جیسا کہ روایت کے الفاظ ’’ فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ ‘‘ سے بعض لوگوں نے یہ مفہوم نکالا ہے؟

درحقيقت روایت میں کسی کا نام موجود نہیں تو اس کا مفہوم یہ  ليا جائے گا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی کو خاص كيےعمومی طور پر یہ بات کہی، کیونکہ اول تو امیر معاویہ رضی اللہ کے الفاظ عام ہیں دوسرا  حسن بن على  یا  عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اختلاف کا کوئی تعلق تھا ہی نہیں تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ انہیں کیوں مراد لے سکتے ہیں ؟

مصنف عبدالرزاق کی روایت میں کسی راوی نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد عبداللہ بن عمر تھے یہ کسی راوی کا قول ہے عبداللہ بن عمر کا  نہیں اور کسی راوی کا قول ہے تو اس سے بھی خطا ہوسکتی ہے۔    ديکھیں: ( مصنف عبد الرزاق 10530).

نیز بیٹے کے ساتھ باپ کا تذکرہ حقیقی معنی میں نہیں ہے بلکہ عرب لوگ اپنی گفتگو میں بطور مبالغہ اسی اسلوب میں باپ کا تذکرہ بھی کرجاتے ہیں ۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ عام انداز میں بغیر کسی خاص شخص کو مراد لیے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات کہے اور "منه ومن أبيه” یعنی اس سے اور اس کے والد سے کے کلمات کہہ کر بات کو مزید پختہ کیا۔

چوتھی بات :
"الامر” سے مراد خلافت نہیں بلکہ سیدنا عثمان کے خون کا بدلہ تھا۔ اس معاملے میں سیدنا امیر معاویہ خود  كو سب سے زیادہ حق دار سمجھتے تھے ۔ بلکہ بہت سے اہل علم بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں چنانچہ علامہ عینی فرماتے ہیں :

فإنه ولي عثمان بن عفان والمطالب بدمه وهو أحق الناس

ترجمہ: وہ (امیر معاویہ ) عثمان بن عفان کے ولی ، اور ان کے قاتلین سے بدلہ  کے طالب  تھے اور لوگوں میں سب سے زیادہ اس کا حق رکھنے والے تھے۔

پانچویں بات:
اس سے مراد خلافت اس لیے بھی نہیں لی جاسکتی کہ سیدنا امیر معاویہ خود سے زیادہ علی بن ابى طالب  رضی اللہ عنہ کو افضل اور خلافت کے معاملے میں زیادہ  اہل سمجھتے تھے۔ ( سیر اعلام النبلاء:3/140 )

چھٹی بات:
سیدنا امیر معاویہ  كى بات سے يقينى طور پر سیدنا عمر اور عبداللہ بن عمر  نہیں لیے جاسکتے ہیں جیساکہ  حافظ ابن حجر نے  فرمایا :

وقيل: أراد عمر وعرض بابنه عبد الله، وفيه بعدٌ؛ لأن معاوية كان يبالغ في تعظيم عمر    ( فتح الباری:7/404 )

ترجمہ: یہ کہا گیا ہے سیدنا امیر معاویہ کی مراد عمر اور عبداللہ بن عمر تھے جبکہ یہ  ناممكن ہے کیونکہ سیدنا معاویہ سیدنا عمر کی بہت زیادہ تعظیم کیا کرتے تھے۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے