
حضرت موسى عليہ السلام كا ملك الموت كو طمانچہ مارنا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالنا
وضاحتِ شبہ:
جیسا کہ حدیث میں آتاہےكہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ملک الموت ( آدمی کی شکل میں ) موسی علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے۔ وہ جب آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے ( نہ پہچان کر ) انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ ( صحیح بخاری حديث نمبر:1339) شبہ یہ ہے کہ کسی پیغمبر کی شان سےبعیدہے کہ وہ موت كو ناپسندجانے اور موت کے فرشتے کو بلا وجہ تھپڑ مارے کہ اس کی آنکھ پھوٹ جائے
جوابِ شبہ
پہلى بات:
مذکورہ واقعہ حدیث کی صحیح ترین کتابوں یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بعد صحیح اور معتبرترین كتابيں ہیں اور اس بات پر تمام امت متفق ہے اوران میں موجود احادیث کی صحت کے بارے میں اجماع نقل کرنے والے علماء و محدثین اور حفاظ کافی سارے ہیں ہر طبقے نے نسل در نسل اس بارے میں اجماع نقل کیا ہے ۔
جيسا كہ حافظ ابن حجر رحمہ الله ابو اسحاق اسفرايينى سے نقل کرتے ہیں:
"اہل فن(محدثين)كا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں موجود احادیث الله تعالیٰ كے نبی ﷺ سے یقینی طور پر ثابت ہیں "۔ تو اس طرح اس واقعے کی صحت میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔
دوسرى بات:
رہی بات کہ یہ عقل اس کو تسلیم نہیں کرتا یا عقل اسے قبول نہیں کرتا تو یہ غیبی امور میں سے ہیں اور ضروری نہیں کہ انسانی عقل اس کا ادراک کر سکے بلکہ اس پر ایمان ضروری ہے اللہ تعالی نے ایمان بالغیب رکھنےوالوں کی تعریف فرمائی اور انہیں متقی قرار دیا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :
هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ( سورۃ البقرة:2،3 )
ترجمہ: بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔ وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے اور اس میں سے، جو ہم نے انھیں دیا ہے، خرچ کرتے ہیں۔
تيسرى بات:
ایسا نہیں کہ یہ واقعہ عقل سے بالاہے! کیونکہ اس میں ایسا کوئی اشکال نہیں جیسا کہ واقعہ میں ہے کہ ملک الموت حضرت موسی علیہ السلام کے پاس انسانی شکل میں آئے اور وہ اس بات سے انجان تھے تو اس طرح تو کوئی بھی کسی انجان کو اپنی جان نہ نکالنے دے، اس سےاس بات کی تردید ہوتی ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے موت كو مكروه جانا۔اور اس بات کی دلیل اسی حدیث میں ہے کہ جب وہی فرشتہ واپس آیا اور آپ پر حقیقت واضح ہوئی تو آپ رضامند ہوگئے۔
چوتھى بات:
جہاں تک حضرت موسی علیہ السلام کا ملک الموت کو مارنے اور اس کی آنکھ ضائع ہونے کا تعلق ہے تو وہ انہوں نے اپنے دفاع میں کیا جیسے کوئی بھی اپنے دفاع میں کرتا اور کیونکہ فرشتہ انسانی شکل میں تھا تو اس پر وہی احکام لاگو ہوں گے جوکہ ایک انسان پر ہوتے ہیں تو اس میں بھی کوئی ماورائے عقل بات نہیں ہے۔
پانچوىں بات:
اگر یہ حدیث خلاف عقل ہے تو کیا نبی کا غصے میں بے قابو ہو کر بڑے بھائی کے سر اور داڑھی کے بال پکڑ كے سرزنش كرنا عقل کے خلاف ہے ؟!ہے جیسا کہ قرآن میں ہے ذکر ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :
قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي…. ( سوره طه:94 )
ترجمہ: اس نے کہا اے میری ماں کے بیٹے! نہ میری ڈاڑھی پکڑ اور نہ میرا سر۔
یاکسی كو گھونسا مار كرقتل کرنا۔اللہ تعالی فرماتا ہے :
فَوَكَزَهُ مُوسَى فَقَضَى عَلَيْهِ ( سوره قصص:15 )
ترجمہ: تو موسیٰ نے اسے گھونسا مارا تو اس کا کام تمام کر دیا۔
تو اب ان مقامات کے بارے میں کیا کہاجائے گا؟ ۔
فرشتے کا انسانی شکل میں آنا اور نبی کا اس بات سے بے خبر ہونا بلکہ اس سے خوف زدہ ہوجانے کا ثبوت قرآن سے ہمیں ملتا جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں قرآن كريم میں ہے:
هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ[24] إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ[25] فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ[26] فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ[27] فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُوا لَا تَخَفْ وَبَشَّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ[28] ( سورہ الذاریات24:28 )
ترجمہ: کیا تیرے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات آئی ہے؟۔ جب وہ اس پر داخل ہوئے تو انھوں نے سلام کہا ۔ اس نے کہا سلام ہو، کچھ اجنبی لوگ ہیں۔ پس چپکے سے اپنے گھر والوں کی طرف گیا، پس (بھناہوا) موٹا تازہ بچھڑا لے آیا۔ پھر اسے ان کے قریب کیا کہا کیاتم نہیں کھاتے؟ تو اس نے ان سے دل میں خوف محسوس کیا، انھوں نے کہا مت ڈر ! اور انھوں نے اسے ایک بہت علم والے لڑکے کی خوش خبری دی۔
مزيد تفصيل كے ليے ديكھیں: تفسير القرطبى (6/132)