حديث كے مشہور راوى” امام زہری” خود سے احاديث گھڑليا كرتے تھے!
وضاحت شبہ:
امام زہری پر احاديث گھڑنے کی تہمت لگائی گئی ہے!۔ مشہور مستشرق (Orientilist) گولڈزیہر لکھتا ہے : عبد الملک بن مروان نے ابن الزبیر کے فتنے میں لوگوں کو حج کرنے سے روکا۔ اور اس نے مسجد اقصیٰ میں گنبدصخرہ بنایا تاکہ لوگ اس کی زیارت(حج) کریں اور کعبہ کے بجائے اس کا طواف کریں، پھر اس نے لوگوں کو مذہبی عقیدے کے ساتھ اس کی زیارت (حج) کروانا چاہا۔چنانچہ اس نے امام زہری کو پایا، جو ملت اسلامیہ میں مشہور تھے، اور احادیث گھڑنے کے لیے تیار تھے، تو امام زہری نے حدیثیں گھڑ لیں۔
جوابِ شبہ
پہلی بات:
امام زہری رحمہ اللہ جليل القدر تابعی ہيں آپ اپنے دور كے عظيم محدث، زبردست ثقہ، امام، حافظ، اور فقیہ تھے آپ کی جلالت اور اتقان پر امت کا اتفاق ہے، آپ کے فضائل، مناقب، اور سیرۃ کو ایک مختصر سے مضمون میں بیان کرنا نا ممکن امر ہے۔ آپ حدیث کے ایسے ستونوں میں سے ہیں جن سے مروی احادیث حدیث کی ہر کتاب میں پائی جاتی ہیں۔
دوسری بات:
مذکورہ الزام سے پہلے کبھی بھی کسی نے بھی امام زہری رحمہ اللہ پر کوئی الزام تراشی نہیں کی بلکہ تمام علمائے اسلام ومؤرخين ہمیشہ سے اس بات پر متفق ہیں کہ امام زہری رحمہ اللہ صدق وامانت کے پیکر ہیں جس کے بارے میں بعض ائمہ نقاد کے چند اقوال درج ذیل ہیں:
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عليكم بابن شهاب هذا فانكم لاتلقون أحدا أعلم بالسنة الماضية منه (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 8/72)
ترجمہ: تم پر ضروری ہے کہ تم اس ابن شہاب کو لازمی پکڑو کیونکہ ان سے زیادہ ماضی کی سنت کو جاننے والا تم نے نہیں پایا ہو گا۔
امام عمرو بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ما رأيت أحدا أبصر بحديث من الزهري (طبقات الکبری لابن سعد: 1/174)
ترجمہ: میں نے زہری سے زیادہ حدیث کی بصیرت رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الفقيه الحافظ متفق على جلالته وإتقانه وثبته (تقریب التهذیب: 6296)
ترجمہ: آپ فقیہ اور حافظ تھے، اور آپ کی جلالت، اتقان و ثبت پر امت کا اتفاق ہے۔
تیسری بات:
کیا امام زہری رحمہ اللہ کے بنو امیہ سے تعلقات حدیثیں گھڑنے کے لئے کافی ہیں! ہرگز نہیں …
حالانکہ تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے ان کا تعلق بھی کوئی اس نوعیت کا نہیں تھا جیسا کہ کسی کمزور کا طاقتور سے ہوتا ہے بلکہ ان کا تعلق بنو امیہ کے ساتھ استاذ و شاگرد کے مابین احترام والاتعلق تھا نہ کہ خادم اور مخدوم والاتعلق۔
چوتھی بات:
امام زہری رحمہ اللہ کی حق کے بارے میں شدت اور ان کا حق پر ڈٹ جانا اور کسی کو بھی خاطر میں نہ لانے کا واقعہ جو خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے ساتھ ہوا ۔ہشام بن عبد الملک نے جب امام زہری سے واقعہ افک کے تعلق سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا:
وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النور:11)
ترجمہ: اور ان میں سے جو شخص اس تہمت کے بڑے حصہ کا ذمہ دار بنا اس کے لئے عذاب عظیم ہے۔
کہ اس شخص سے مراد کون ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس سے مراد عبد اللہ بن ابیّ بن سلول ہے تو ہشام نے انہیں جھٹلادیا اور کہا کہ اس سے مراد علی بن ابی طالب ہیں! امام زہری نےاس پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا: اللہ کی قسم اگر آسمان سے یہ ندا آئے کہ اللہ نے جھوٹ حلال کردیا ہے پھر بھی میں جھوٹ نہ بولوں۔ پھر انہوں نے اپنی سند سے نقل کیا کہ اس شخص سے مراد عبد اللہ بن ابیّ ہے۔
مذکورہ واقعہ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ امام صاحب حق کے بارے میں کسی بھی قسم کی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے تو اس قسم کی شخصیت سے کسی کے مطلب کے لیے احادیث گھڑنے کا تصور ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔
پانچویں بات:
خود گولڈ زیہرنے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ اس طرح کی شخصیت نہیں تھے کہ جو مال وجاہ کی چاہ میں ایسا کچھ کرتے۔
عمرو بن دينارکہتے ہیں کہ کسی شخص کےیہاں درہم و دینار کو اتنا بے وقعت نہیں دیکھا جتنا زہری کے پاس دیکھا، ان کے یہاں درہم و دینار کی حیثیت گوبر کے مانند تھی۔
اسی طرح اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ مسلمانوں کے یہاں امام زہری کا مقام و مرتبہ بہت بلند تھا تو ایسا شخص جومال وجاہ کا طلب گار نہیں تو وہ کیونکر حدیثیں گھڑتا۔
چھٹی بات:
اگر امام زہری رحمہ اللہ نے بنو امیہ کے حق میں اور ان کی حکومت کو مضبوطی بخشنے کے لئے حدیثیں گھڑیں تو عباسی دور میں ،جن کی دشمنی بنو امیہ سے معروف ہے، کیونکر اس بات پر توجہ نہ دلائی گئی بلکہ اس دور میں بھی ان کی تعریف و ستائش ہی ملتی ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الزُّهْريّ أَحْسَنُ النَّاسِ حَدِيثًا وَأَجْوَدُ النَّاسِ إِسْنَادًا (الکامل لابن عدی: 1/139)
ترجمہ: زہری لوگوں میں سب سے زیادہ اچھی حدیث والے، اور اسناد میں سب سے زیادہ اجود تھے۔
چنانچہ امام زہرى پر اعتراضات كى كوئی حقيقت نہیں، صرف ان كى حديث بيان كرنے كى كثرت كو قابل اعتراض بنانے كى سازش ہے۔