جب موت كا وقت مقرر ہے تو پھر عمر میں اضافے کی احادیث كا كيا مطلب؟
وضاحتِ شبہ:
بعض احادیث میں ہے کہ صلہ رحمی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے ۔اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ تقدیر کو صرف دعا ٹالتی ہے۔ اور عمر میں سوائے نیکی کے کسی چیز کے ذریعے اضافہ نہیں ہوتا۔جبکہ قرآن کریم میں ہے کہ :
فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ( الاعراف:34 )
ترجمہ: پھر جب ان کا وقت آجاتا ہے تو وہ ایک گھڑی نہ پیچھے ہوتے ہیں اور نہ آگے ہوتے ہیں۔
جوابِ شبہ
پہلی بات:
صلہ رحمی سے عمر میں اضافے کا ذكر متعدد صحیح احادیث میں موجود ہے جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے سیدنا انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں یا عمر میں اضافہ ہو وہ صلہ رحمی کرے۔ (صحیح بخاری : 5986 ، صحیح مسلم : 2557)
یہی حدیث سیدنا ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے۔ (صحیح بخاری : 5985)
سیدنا ابن عمر فرماتے ہیں کہ جو اپنے رب سے ڈرتا ہو اور صلہ رحمی کرتا ہو اسکی عمر میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ (الادب المفرد : 58)
اس مفہوم کی اور بھی احادیث ہیں ۔
اہلِ علم نے صلہ رحمی کی وجہ سے عمر میں ہونے والے اضافے کے مختلف معانى ذكر كيے ہیں۔
بعض نے اس اضافے سے مراد حقیقی اضافہ لیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تو اس شخص کی ٹوٹل عمر ہوتی ہے لیکن ملک الموت کے علم کے لحاظ سے اس میں کمی بیشی ممکن ہے اور اس حدیث میں یہی مراد ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے :
يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ( الرعد:39 )
ترجمہ: اللہ جو چاہے (لوح محفوظ سے) مٹا دیتا ہے اور جو چاہے برقرار رکھتا ہے۔
یعنی قرآنِ کریم میں جہاں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ کسی کی موت کے مقررہ وقت میں کوئی تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے علم میں مقررہ وقت ہے۔ جبکہ قرآنِ کریم کی آیت: (يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ) میں جس چیز کی طرف اشارہ اور احادیث میں جس كمى اور اضافے کا بیان ہے وہ ملک الموت کے علم کے لحاظ سے ہے۔
بعض اہلِ علم نے صلہ رحمی کی وجہ سے ہونے والے اضافے سے مراد عمر میں برکت لی ہے یعنی کم عمر میں اللہ تعالى بڑے بڑے کام اور نیکیوں کی توفیق دے دے جو لمبی عمر میں بھی ممکن نہ ہو۔
دوسری بات:
تقدیر کا دعا کے ذریعے سے رد کیا جانا (جامع ترمذی : 2225، مستدرک علی الصحیحین : 1814) بھی اس آیتِ کریمہ کے خلاف نہیں ہے ۔ اہلِ علم نے اس کی وضاحت كى ہے کہ جس طرح پیٹ بھرنے کے لیے کھانا کھانا سبب ہے، پانی پینا سیراب ہونے کا سبب بنتا ہے اور یہ نہیں کہا جاتا کہ اگر اس کے لیے پیٹ بھرنا لکھا ہوا ہے تو پھر یہ کھانا کیوں کھا رہا ہے اگر اس کی تقدیر میں پیٹ بھرنا لکھا ہوگا تو پیٹ بھر جائے گا اور اگر خالی رہنا لکھا ہوگا تو خالی رہے گا۔ ایسے موقع پر یہ بات نہیں کہی جاتی كیونکہ پیٹ بھرنے کے لیے کھانا کھانا سبب ہے اور یہ سبب بھی تقدیر میں لکھا ہوا ہے ۔
اسى طرح کسی منزل پر پہنچنے کے لیے سفر سبب ہے اور یہ سبب بھی تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح دعا بھی انہی مقدرہ اسباب میں سے ہے کہ یہ دعا کرنا بھی تقدیر میں لکھا ہوا ہے اور اس کی قبولیت و عدمِ قبولیت کے لحاظ سے نتائج بھی تقدیر میں لکھے ہیں۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یہاں یہ مشہور سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس امر کے لیے دعا کی جاتی ہے اگر وہ مقدر ہو چکا ہے تو بندہ دعا کرے یا نہ کرے اس کا وقوع میں آنا ضروری ہے اور اگر وہ مقدر نہیں ہے تو بندہ دعا کرے یا نہ کرے وقوع میں نہیں آئے گا۔
اس مغالطے کو ایک گروہ نے صحیح سمجھا اور الله تعالى سے دعا اور التجا کو بالکل چھوڑ دیا اس بناء پر یہ گروہ اس امر کا قائل ہوگیا کہ دعا سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ یہ انتہائی جہالت ااور گمراہی ہے۔ نیز اس رائے کے حامل لوگ خود تضاد کا شکار ہیں کیونکہ اگر یہ اپنے موقف کو مکمل طور پر مان لیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ دنیا میں موجود تمام اسباب بے فائده ٹھہریں گے۔ ایسے شخص کو کہا جائے کہ اگر پیٹ کا بھرنا تمہارے مقدر میں ہے تو پھر کھانے یا نہ کھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسی طرح اگر تمہاری تقدیر میں اولاد لکھ دی گئی ہے تو وہ ہو کر رہے گی پھر نکاح وغیرہ كرنے کی کیا ضرورت؟!
مزید کچھ سطور کے بعد فرماتے ہیں:
’’ بعض لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ دعا کرنا محض الله كى عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کو اجر و ثواب عطا فرماتا ہے۔ حصولِ مطلوب میں دعا کا کوئی اثر و دخل نہیں۔ بعض لوگ تو اس سے بھی بڑھ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ دعا تو کسی حاجت کے پورا ہونے کی ایک نشانی ہے یعنی کسی بندے کو دعا کی توفیق ملی تو اس کی ضرورت پورا ہونے کی علامت ہے۔ اسکی مثال ایسی ہے کہ موسمِ برسات میں تم سیاہ بادلوں کی گھٹائیں اور سرد ہوائیں دیکھتے ہو تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ برسات ضرور ہوگی۔ ان لوگوں کے نزدیک طاعات، عبادات کے اجر و ثواب اور کفر و معاصی کے عقاب و عذاب کا بھی یہی حکم ہے کہ طاعات، عبادات، کفر و عصیان محض اجر و ثواب ، عقاب و عذاب کی علامتیں ہیں اور کچھ نہیں۔ کیونکہ یہ چیزیں ثواب و عذاب کے اسباب نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک کسی چیز کو توڑنے سے ٹوٹ جانے ، جلانے سے جل جانے ، قتل کرنے سے قتل ہو جانے کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ یہ چیزیں ان امور کے لیے حتمی اسباب نہیں ہیں کیونکہ ان چیزوں میں اور ان امور میں کوئی ترتیب و تعلق نہیں ہے محض ایک عادتی ربط و تعلق ہے۔ کوئی ایسا اثر اور ایسا تعلق و ربط نہیں جو بطورِ سبب و علت کے ہو۔
ان کا یہ قول ظاہر ، عقل ، شرع ، فطرت اور تمام اہلِ عقل و بصیرت کے خلاف ہے بلکہ دنیا جہاں کے عقل مند اربابِ بصیرت ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
اس بارے میں ایک تیسرى رائے ہے اور وہی صحیح رائے ہے وہ یہ کہ ہر امر اسباب کے ساتھ مقدر ہوا ہے اور انہی اسباب میں سے ایک سبب دعا بھی ہے۔ مزيد كے ليے ديكھیں: (الجواب الکافی، ص : 21)
اس تفصیل کے بعد واضح ہو گیا کہ مذکورہ احادیث قرآنِ کریم کے خلاف نہیں ۔