اللہ تعالی کے فرمان : ’’جوکچھ رسول دے وہ لے لو، اور جس سے روکےتو رک جاؤ‘‘سے مراد مال كى تقسيم ہے نا کہ حدیث نبوى!

وضاحتِ شبہ:
قرآن مجيد میں ہے کہ: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا  [ سورة الحشر:7 ]
ترجمہ: جوکچھ رسول دے وہ لے لو، اور جس سے روکےتو رک جاؤ۔ کہا یہ جاتا ہےکہ یہ آيت حدیث نبوى ﷺ كو اپنانے كى دعوت ديتی ہے مگرایسانہیں ہے،کیونکہ اس آیت میں تو اموال فے کی تقسیم کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔جیسا کے آیت کے شروع كےحصے سے پتہ چلتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتاہے : مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ [ سورۃ الحشر:7 ]
ترجمہ: جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں سے اپنے رسول پر لوٹایا تو وہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے، تاکہ وہ تم میں سے مال داروں کے درمیان ہی گردش کرنے والا نہ ہو اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔
جوابِ شبہ

 

پہلی بات:
جب ہم آیت کے الفاظ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات بخوبی سمجھ آجائےگی کہ عربی زبان میں دینے کے لیےلفظ ’’أعطی ‘ ‘ اور ’’آتى‘‘دونوں کا استعمال ہوتا ہے مگر ’’آتى ‘‘  لفظ’’أعطی‘‘سے زیاد ہ وسیع مفہوم رکھتا ہےاسمیں علم ،بادشاہت ،حکمت وغیرہ دینا بھی شامل ہے جیسا کہ ان آیات سے سمجھا جا سکتا ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ   [ سورۃ المجادلہ:11 ]

ترجمہ: اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گاجو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، پوری طرح باخبر ہے۔

وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ    [ سورۃ البقرہ:251 ]

ترجمہ: اور اللہ نے اسے بادشاہی اور دانائی عطا کی۔

تو اس آیت میں آپ ﷺ کےفرامین (احادیث جن میں آپ کے دئیے ہوے احکامات ہیں ) مراد ہیں کیونکہ ’’آتیٰ‘‘ کے مقابلے میں ’’نھیٰ‘‘ یعنی منع کرنا  استعمال ہواہےجبکہ اگر اس سے مراد مال دیناہوتا تو مقابلے میں ’’لم یؤتِ‘‘بھی استعمال ہو سکتا تھا یعنی ’’نہ دے‘‘ جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے:

وَآتَاكُمْ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ   [ سورۃ المائدہ:20 ]

ترجمہ: وہ کچھ دیا جو جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔

دوسری بات:
اگرمذکورہ آیت سے مراد مال کی تقسیم لے لی جائے تو وہ آیت ہی میں موجود ہے پھر رسول کے دینے یا روکنے کا کیا معنی ہے؟  آیت ملاحظہ ہو:

اللہ تعالی  فرماتاہے :

مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ    [ سورۃ الحشر:7 ]

ترجمہ: جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں سے اپنے رسول پر لوٹایا تو وہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے، تاکہ وہ تم میں سے مال داروں کے درمیان ہی گردش کرنے والا نہ ہو اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔

بلکہ اس سے تو اس بات کی اور تاکید ہو جاتی ہےکہ رسول اللہ ﷺ کی باتیں آپکے فرامین اتھارٹی ہیں ورنہ پہلے سے تقسیم شدہ مال کے بارے میں دینے یا روکنے کا کیا معنی رہ جاتا ہے؟!اور جیسے آپ کا دینا اور روک دینا معتبر ہے ویسے ہی آپکا حکم دینا اور منع کرنا جوکہ آپ کی احادیث ہیں معتبر ہے۔

تیسری بات:
اس آیت کریمہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی حدیث نبوى  ہی مراد لی ہے جیسا کہ حدیث کی صحیح ترین کتاب صحیح بخاری میں ہے :

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے گودوانے والیوں اور گودنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور حسن کے لیے آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیلی کرتی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ کلام قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت کو معلوم ہوا جو ام یعقوب کے نام سے معروف تھی وہ آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس طرح کی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے؟ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا آخر کیوں نہ میں انہیں لعنت کروں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ کے حکم کے مطابق ملعون ہے۔ اس عورت نے کہا کہ قرآن مجید تو میں نے بھی پڑھا ہے لیکن آپ جو کچھ کہتے ہیں میں نے تو اس میں کہیں یہ بات نہیں دیکھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم نے بغور پڑھا ہوتا تو تمہیں ضرور مل جاتا کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی: (وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا‏) کہ ”رسول تمہیں جو کچھ دیں لے لیا کرو اور جس سے تمہیں روک دیں، رک جایا کرو“  ؟اس نے کہا کہ پڑھی ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے ان چیزوں سے روکا ہے۔(صحیح بخاری:4886)

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ استدلال سن کر اس خاتون نے یہ نہیں کہا کہ یہ حکم تو مال فے کی تقسیم سے متعلق ہے ، بلکہ اس نے اقرار کرکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سمجھے ہوئے مفہوم کی تائید کردی۔

ايک اور حديث میں حضرت سعید بن جیرسے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ سےسنا ، ان دونوں نے رسو ل اللہ ﷺ پر گواہی دی کہ آپ نےکدو کےبرتن ، روغنی مٹکے ، کھجور کی جڑ کے بر تن اور تارکول لگے ہوئے برتن سے منع فرمایا ۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑ ھی :’’ رسو ل اللہ جو کچھ تمھیں دیں ، وہ لے اور جس چیز سےتمھیں روکیں ، اس سے رک جاؤ،، ۔ سنن نسائى (5643)، مسند احمد (3300).

اسى طرح   تابعين عظام اور علماء كى ايک بڑی جماعت حديث نبوى كى تعظيم اور اس كے مقام ومرتبہ كو واضح كرنے كيليے اس آيت كو بيان كرتى ہے، طوالت كے پيش نظر ہم صرف ريفرنس دينے پر اكتفا كر رہے ہیں:

جماع العلم للشافعى –الام-(7/288)، الابانہ الكبرى لابن بطہ العكبرى(1/249)، (7/58)، تأويل مختلف الحديث (ص282)، معرفہ السنن والآثار للبيہقي (1/101)، جامع بيان العلم وفضلہ لابن عبد البر (2/1003)، (2/1181).

اسى طرح حضرات مفسرين نے بھی اس آيت سے سنت كى اتباع كا حكم ہی ليا.  ديكھیں: تفسير الزمخشرى (4/503)، تفسير ابن جزي (2/360)،تفسير الماوردى (5/504)، تفسير القرطبى(18/17).

آخرى بات:

اللہ تعالیٰ نے ایک قاعدہ کلیہ اور ایک عام اصول مقرر فرمایا :﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ﴾ ”رسول جو تمہیں دے ،وہ لے لو اور جس سے وہ تمہیں روک دے ،اس سے رک جاؤ۔ “یہ آیت کریمہ، دین کے اصول فروع اس کے ظاہر وباطن سب کو شامل ہے، نیز یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو کچھ لے کرآئے ہیں، اس سے تمسک کرنا اور اس کی اتباع کرنا بندوں پر فرض ہے اور اس کی مخالفت کرنا جائز نہیں، نیز اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی چیز کے حکم پر رسول اللہ ﷺ کی نص، اللہ تعالیٰ کی نص کے مانند ہے اور اس کو ترک کرنے میں کسی کے لیے کوئی رخصت اور عذر نہیں اور کسی کے قول کو آپ کے قول پر مقدم رکھنا جائز نہیں۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے