جونیہ قبیلے کی خاتون كى نبی کریم ﷺ سے شادى پر اعتراضات كے جوابات

جونیہ قبیلے کی خاتون كى نبی کریم ﷺ سے شادى پر اعتراضات كے جوابات

وضاحت شبہ:
ايک حديث ميں ہے کہ آپ ﷺ سے جونى نامى قبيلہ كى خاتون سے شادى كی، ليكن پھر وہ  رشتہ قائم نہ رہا، اس  كى كيا وجہ بنى؟ اور  كيا آپ ﷺ نے واقعى نكاح كيا تھا يا یوں کہا تھا کہ اپنا نفس میرے حوالے کردو ؟ اسى طرح بعض ديگر اعتراضات جيسے اس حدیث میں  اس عورت کے نام  میں  تعارض ہے  (يعنى اس بارے ميں مختلف متضاد باتيں ملتى ہیں)،  بعض لوگ  یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ  اس حدیث میں عورت  نے نبی کریم ﷺ کے بارے میں نازیبہ کلمات استعمال کیے،   یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ ابو اسید رضى الله عنہ اس عورت کو اس کے محرم کے بغیر چھوڑنے کیوں گئے؟
جوابِ شبہ

 

پہلى بات:
 اسنادی طور پر یہ قصہ صحیح بلکہ حدیث کی معتبر  ترین کتاب صحیح بخاری میں موجود ہے،   جس كى تمام احاديث كے مستند ہونے پر امت اسلاميہ كا اتفاق ہے،اور یہ قصہ مختلف احادیث میں مختلف سیاق  وسباق کے ساتھ مذكورہے جس کی تفصیل ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔

صحيح بخاری میں ایک جگہ ہے:
امام  اوزاعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام زہری سے پوچھا : نبی ﷺ کی وہ کون سی بیوی تھی جس نے آپ ﷺ سے پناہ مانگی تھی؟  انہوں نے کہا :مجھے عروہ نے بتایا، وہ سیدہ عائشہ  سے  روایت کرتے ہیں کہ جون قبیلے کی عورت جب نبی کریم ﷺ کے پاس بلایا گیا اور آپ ﷺ اس کے قریب گئے تو اس نے کہا: میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو نے بڑی عظیم ذات کے ذریعے سے پناہ مانگی ہے، لہذا تو اپنے اہل خانہ کے ہاں چلی جا۔“

صحیح بخاری میں اس اگلی ہی حدیث میں ابو اسید رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے  وہ فرماتے ہیں:
ہم نبی ﷺ کے ساتھ نکلے اور چلتے چلتے شوط باغ پہنچ گئے، اور وہاں جا کر بیٹھ گئے۔ ہم اس کے در و دیوار کے درمیان جا کر بیٹھ گئے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ یہاں بیٹھ جاؤں۔“ اور آپ ﷺ  اندر تشریف لے گئے، وہاں  جون قبیلے کی خاتون کو لایا گیا ۔  اسے  امیمہ بنت نعمان بن شرجیل کے گھر میں بٹھایا گیا۔ اس کے ساتھ دیکھ بھال کے لیے ایک دایہ بھی تھی۔ جب نبی ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو اپنے آپ کو میرے حوالے کردے۔“ اس نے جواب دیا: کیا کوئی شہزادی اپنے آپ کو ایک عام آدمی کے حوالے کرسکتی ہے؟ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اس کے سر پر رکھا تاکہ اسے سکون حاصل ہو۔ اس نے کہا: میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو نے ایسی ذات سے پناہ مانگی ہے جس کے ذریعے سے پناہ مانگی جاتی ہے۔“ اس کے بعد آپ ﷺ باہر ہمارے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا: اے ابو اسید! ”اسے دو رازقیہ کپڑے پہنا کر اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو۔“

پھر مزید تفصیل کے لیے صحیح بخاری کی  اگلی حدیث بھی اسی سے متعلق ہے  چنانچہ   اس روایت کے راوی سیدنا سہل بن سعد اور ابو اسید  ہیں:
رسول اللہ  ﷺ نے امیمہ بنت شراجیل سے نکاح کیا تھا پھر جب وہ آپ ﷺ  کے پاس لائی گئی تو آپ ﷺ  نے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا جسے اس نے ناپسند کیا، چنانچہ آپ ﷺ نے سیدنا ابو اسید کو حکم دیا کہ اس کو سامان دے کر تیار کرے اور اسے دو رازقی کپڑے پہننے کے لیے دے دے۔

صحیح بخاری ہی میں  ایک جگہ یہ حدیث یوں مروی ہے کہ سہل بن سعد  بیان کرتے ہیں:
نبی کریم ﷺ کے سامنے   ایک عرب خاتون کا ذکر کیا گیا تو آپ  ﷺ نے  سیدنا  ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ  کو حکم دیا کہ  اسے یہاں آنے کا پیغام بھیجیں۔ انہوں نے اس کی طرف پیغام بھیجا تو وہ حاضر ہوئی اور بنو ساعدہ کے مکانات میں ٹھہری۔ نبی ﷺ بھی تشریف لائے اور اس کے پاس گئے۔ آپ ﷺنے دیکھا کہ وہ عورت سر جھکائےبیٹھی تھی، جب نبی ﷺ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا: میں آپﷺ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے تجھے پناہ دی۔“ لوگوں نے اس سے کہا: کیا تجھے معلوم ہے کہ یہ کون تھے؟ اس نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ تھے اور تم سے نکاح کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ اس نے کہا: پھر میں تو انتہائی بد نصیب رہی۔(صحیح البخاری : 5673)

تینوں روایات کو ملانے سے بہت سے اعتراضات رفع ہوجاتے ہیں جس کی تفصیل اگلی سطور میں آئے گی۔

دوسرى بات:
بعض لوگوں کا يہ سمجھنا ہے کہ صحیح بخاری میں اس روایت کو متعدد بار ذکر کیا گيا ہے، اور اس كے مختلف الفاظ ميں تضاد ہے ،    ذيل    ميں ہم ترتيب كے ساتھ ان اعتراضات كو ذكر كرتے ہیں،  اور ان كا درست معنى واضح كرتے ہیں ان شاء الله.

اعتراض : 1

بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے شادی کی تھی جبکہ بعض میں ہے کہ نبی کریم ﷺ  اسے یہ کہا ہے اپنا نفس میرے حوالے کردیں۔

جواب

اوپر ذكر كردہ صحيح بخارى كى حديث ميں صراحت کے ساتھ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے شادی کی ، البتہ جس روایت میں یہ ہے کہ اپنا نفس میرے حوالے کردو، وہ عقد کے طور پر نہیں تھا بلکہ اس عورت کی تسکین ، اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے اس قسم کے کلمات کہے، ابن عبدالبر نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے شادی کی تھی۔  ( الاستیعاب : 4/1785)۔

البتہ حافظ ابن حجر اس طرف گئے ہیں کہ  دو مختلف خواتین کے مختلف واقعات ہیں ایک سے شادی کا معاملہ  ہے اور ایک سے  ہبہ کا۔ (دیکھیے : فتح الباری : 9/359)

جبکہ  ابن قیم رحمہ اللہ قصے کو ایک ہی گردانتے ہیں  ،وہ فرماتے ہیں کہ یہ ایک ہی قصہ ہے جو سیدہ عائشہ ، ابو اسیداور سہل کی روایت کے گرد گھومتا ہے اور ان میں سے ہر ایک نے اسے بیان کیا ہےا ور ان کی روایات کے الفاظ بھی قریب قریب ہیں ، رہا مسئلہ اس تعارض کا  کہ ایک روایت میں نبی کریم پیغام نکاح کے  لیے آئے جبکہ دوسری میں ہے کہ اس کے پاس داخل ہوئے تو داخل ہونے سے مراد عام داخل ہونا ہے نہ کہ بیوی کے پاس آنا۔ اس صورت میں کوئی تعارض باقی نہیں رہتا یا پھر کسی ایک لفظ کو وہم مانا جائے۔ ) زاد المعاد :5/ 290) ابن حزم بھی اسے ایک ہی قصہ سمجھتے ہیں اور دخول کو عام معنی میں لیتے  ہوئے کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اس کے پاس داخل ہونے كا مطلب  نکاح کے پیغام کے لیے آنا ۔ (المحلی : 9/440)

اعتراض : 2 

اس حدیث میں اس خاتون نے نبی کریم ﷺ کے بارے میں نازیبہ کلمات کہے  اس کی وجہ کیا تھی؟

جواب

جونیہ قبیلے کی خاتون نے نبی کریم سے بچنے کی پناہ کیوں مانگی اس کی وضاحت کرتے ہوئے بعض اہل علم نے یہ  جواب دیا ہے کہ وہ خاتون اس وقت نبی کریم ﷺ کی شخصیت سے نا آشنا تھی جیسا کہ  حدیث میں بیان ہوا  ہے کہ صحابہ نے پوچھا : ’’أَتَدْرِينَ مَنْ هَذَا؟‘‘ کیا  تمہیں معلوم ہے یہ کون شخصیت ہیں ؟ اس خاتون نے جواب دیا : نہیں ۔پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے بتلایا کہ آپ رسول اللہ  ﷺ تھے اور آپ کو نکاح کا پیغام دینا چاہتے تھے ۔  اس خاتون نے جوابا کہا :

كُنْتُ أَنَا أَشْقَى مِنْ ذَلِكَ

ترجمہ: پھر میں تو انتہائی بد نصیب رہی

حدیث کے ان واضح کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمات کہتے وقت اس خاتون کو آپ  ﷺ كا معلوم نہ تھا بلکہ وہ اس پر پشیمان بھی تھیں  ۔

بعض روایات میں اس کی  وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ آپ ﷺ کی بعض ازواج مطہرات نے یہ کہہ دیا  کہ نبی کریم ﷺ اس کلمہ کو پسند کرتے ہیں تو اس نے نبی کریم ﷺ کی قربت کی رغبت سے کہہ دیا، اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ سے فراق پالے۔  (دیکھیے : الطبقات لابن سعد : 8/143-148 ، مستدرک حاکم : 4/39   ، اس کی سند میں محمد بن واقد ضعیف راوی ہے۔ لہذا یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔)

پہلی وجہ چونکہ صحیح بخاری کی صریح روایت  سے واضح ہے اس لیے یہی زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہے۔

بہر حال اس ساری تفصیل سے تو نبی کریم ﷺ کا اخلاق مزید نکھر کر سامنے آتا ہے چہ جائیکہ انگلیاں اٹھائیں جائیں، ایک خاتون  نے جب لاعلمی میں ایسی بات کہہ دی تو آپ ﷺ نے درگزر سے کام لیا، اور  اس  درگزر ، صبر کی مثالیں تو بکثرت نبی کریم ﷺ کی زندگی سے پیش کی جاسکتی ہیں ۔ جب کہنے والے آپ کو مذمم کہہ کر آپ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرتے تھے ، آپ تب بھی   یہ کہہ کر چھوڑ دیتے کہ یہ تو كسى اور كو مذمم کو کہہ  رہے ہیں ، میں تو محمد ہوں ﷺ  ۔

اعتراض : 3

ابو اسید کا اس عورت کے ساتھ تنہا سفر کرنا بھی قابل اعتراض ہے۔

جواب 

پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث میں اس بات کی نفی نہیں ہے کہ اس عورت کے ساتھ کوئی محرم موجود نہیں تھا، البتہ موجود ہونے کا ذکر بھی نہیں ہے۔ لہذا ذکر نہ ہونے سے یہ متعین کرلینا کہ محرم نہیں ہوگا صحیح نہیں بلکہ نفی کی دلیل چاہیے، دوسری بات یہ ہےکہ اگر یہ مان بھی  لیا جائے کہ کوئی  محرم ساتھ نہیں تھا تو بھی کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے جب اس خاتون سے نکاح کرلیا تو اس کے بعد وہ پوری امت کی ماں بن گئی، لہذا کوئی اشکال باقی نہ رہا ۔ (شرح مشکل الآثار : 2/102)

اعتراض : 4 

عبد الرحمن بن غسیل عن حمزہ بن ابی اسید عن ابی اسید  کی سند سے روایت کیا،  اس میں ہے کہ جون قبیلے کی خاتون کو امیمہ بنت شراحیل کے گھر میں لایا گیا،اور صحیح بخاری ہی میں سہل بن سعد اور ابی اسید کی سند سے ہے جس میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے امیمہ بنت شراحیل سے شادی کی۔

 جواب

حدیث کے الفاظ میں اسی طرح  "امیمہ” کی طرف  "بیت” (گھر)   كى نسبت ہے جس کا معنی  یہ ہے کہ امیمہ کے گھر میں  وہ خاتون  لائی گئی ،جبکہ بہت سے نسخوں میں امیمہ کو مرفوع پڑھا گیا جونیہ کا بدل یا عطف بیان بناتے ہوئے اور بعض شارحین اسے اضافت کے ساتھ سمجھ بیٹھے۔   جیساکہ حافظ ابن حجر،  عینی ، کرمانی وغیرہ نے ذکر کیا ہے "وَقَدْ أُتِيَ بِالْجَوْنِيَّةِ، فَأُنْزِلَتْ فِي بَيْتٍ فِي نَخْلٍ فِي بَيْتٍ أُمَيْمَةُ بِنْتُ النُّعْمَانِ بْنِ شَرَاحِيل”

یعنی : جونیہ خاتون کو لایا گیا تو وہ کھجوروں کے درختوں میں ایک گھر میں لائی گی وہ امیمہ بنت نعمان بن شراحبیل تھی۔

پھر اس کی تائید مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت سے ہوئی۔(ارشاد الساری : 8/131، فتح الباری : 9/358)۔

پھر بعض روایات میں  اسماء کا نام بھی مذکور ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر نے یہ توجیہ بیان کی ہے کہ ممکن ہے کہ اسماء ان کا نام اور امیمہ ان کا لقب ہو۔

اعتراض : 5

بعض لوگوں کا اعتراض یہ ہے کہ  اگر رسول اللہ ﷺ نے اس خاتون  سے شادی کر لی  تھی  تو یہ صحیح نہ تھا کیونکہ کسی عورت سے اس کی اجازت کے بغیر نکاح کیسے کیا جاسکتا  ہے؟ اور اگر یہ کہا جائے کہ نکاح نہیں کیا تھا تو پھر یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے اجنبی عورت  کے ساتھ تنہائی کیوں؟

جواب

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس مسئلہ پر کوئی دلیل موجود نہیں کہ وہ راضی نہ  تھی بلکہ بعض روایات سے اشارہ ملتا ہے کہ اس کی نبی کریم ﷺ کے بارے میں رغبت تھی، ليكن وه آپ ﷺ كو بادشاه  اور امراء كے مزاج والا سمجھتى تھی،  رہی  یہ بات کہ نکاح نہیں کیا تھا ، اس پر بات گزر چکی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے نکاح کیا تھا اور اس پر  امت كا اجماع ہے ۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے