کعب الاحبار پر اسرائیلی روایات کو سنت میں خفیہ طور پرداخل کرنے کا الزام!

وضاحت شبہ:  کہا جاتا ہے کہ کعب الاحبارجو کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودی تھےانہوں نے احادیث میں خفیہ طور پر اسرائیلی روایات کو داخل کردیااور وہ منافق تھے(نعوذ باللہ)ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر احادیث کے نام پررسول اللہ ﷺ کی طرف وہ کچھ منسوب کرتے تھے جودر اصل پچھلی کتابوں یعنی اہل کتاب (بنی اسرائیل) کی باتیں تھیں ! اور اس بات کی دلیل یہ بیان جاتی ہےکہ
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کعب احبار کا ذکر کیا اور فرمایا : کبھی ان کی بات جھوٹ نکلتی تھی۔(صحیح بخاری:7361)
تو جب سنت میں اسرائیلی روایات کی آمیزش ہوگئی ! تو کیا سنت قابل عمل / اعتماد رہی؟! ۔
جوابِ شبہ

 

پہلی بات:
سب سے پہلے تو یہ جاننا اہم ہے کہ کعب الاحبارکون تھےاور اسرائیلی روایات کیاہیں؟کعب الاحبارکا اصل نام كعب بن ماتع الحمیری تھاجبکہ احبار ان کویہود کے عالم ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہےانکا تعلق یمن سےتھا انھوں نےیہودیت کو چھوڑکر اسلام قبول کر لیا تھااور حضرت عمر کے دور خلافت میں مدینہ آئےاور صحابہ کے درمیان رہےاور انہیں اہل کتاب (بنی اسرائیل) کی کتابوں سے باتیں بتاتے جن پر انہیں سابق یہودی عالم ہونے کے باعث دسترس حاصل تھی جنہیں اسرائیلی روایات کہا جاتا ہے اور آپ صحابہ کرام سے احادیث سنتےآپ نے حضرت عمر،صہیب اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے احادیث روایت کیں پھرآپ ملک شام چلے گئے اور وہیں آپ کا انتقال 32 ھجری  میں حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوا۔(دیکھئے سیراعلام النبلاء4/472،تھذیب التھذیب:8/438)

تو مختصر یہ کہ کعب الاحبارتابعی تھے جیسا کہ ابن سعد رحمہ اللہ انہیں ملک شام میں رہنے والے تابعین میں ذکر کیا ہے۔( دیکھئے طبقات الکبری7/309)

آپ کے علم کی گواہی ہمیں بعض صحابہ کرام سے ملتی ہے:

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ آپ کہ بارے میں کہتے ہیں :  اس حمیر قبیلے والے کے پاس بڑا علم ہے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کہ بارے میں کہتے ہیں :  کعب الاحبارعلماءمیں سے ہیں ان کے پاس سمندر جتنا علم ہے۔  ( دیکھئے: فتح الباری13/335)

حافظ ذہبى فرماتے ہیں: (کعب الاحبار عمدہ مسلمان اور ٹھوس ديندار عالم دین تھے)۔ ( دیکھئے: سير اعلام النبلاء:3/490)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کعب الاحبارکو ثقہ(بااعتماد) ذکر کیا ہے۔( دیکھئے: تقریب التھذیب:5648)

الغرض جمہور اہل علم نے کعب الاحبارکی توثیق کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ضعفاء و متروکین کی کتب میں آپ کو ان کا تذکرہ نہیں ملے گا۔

دوسری بات:
یہ جاننے کے بعد کہ کعب الاحبارتابعی تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہ درمیان رہےاور صحابہ ان سے پچھلی کتابوں )جن کا انہیں علم تھا( کی باتیں سنتے(روایت کرتے) تھےاور یہ تب ہی ممکن تھا جب وہ صحابہ کرام کے یہاں بااعتماد ہوں اوربعد کے اہل علم نے بھی انہیں بااعتماد قرار دیاہے تو پھراس بے بنیاد الزام کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟!کیا صحابہ کرام جن کی تربیت رسول اللہ ﷺ نےفرمائی تھی ان کو یہ پتہ نہیں چلا کہ وہ کوئی بدنیت شخص ہیں (نعوذباللہ)اور کیا صحابہ کرام اتنے سادہ تھے اور کیا وہ نبی ﷺ کی تعلیمات (سنت/احادیث)کو جانتے اور پہچانتے نہیں تھے کہ وہ آپ ﷺ کی تعلیمات اور اس میں داخل کردہ کسی شے میں فرق ہی نہ کرسکیں یا ایسا کچھ ہوتا ہوا دیکھیں اوراس پر خاموش رہیں !

تیسری بات:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا کعب احبار کے بارے میں یہ کہنا کہ’’ کبھی ان کی بات جھوٹ نکلتی تھی‘‘کا معنی ومفہوم سمجھنے کے لئے سب سے پہلے تو پوری روایت کا جاننا ضروری ہے کہ بات کیا ہورہی ہے۔

روایت ملاحظہ ہو:

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کعب احبار کا ذکر کیا اور فرمایا :جتنے لوگ اہل کتاب سے احادیث نقل کرتے ہیں ان سب میں کعب احبار بہت سچے تھے اور باوجود اس کے کبھی کبھی ان کی بات جھوٹ نکلتی تھی۔(صحیح بخاری:7361)

تو اشکال خود ہی ختم ہو جاتا ہے کہ وہ تو یہ بتا رہے ہیں کہ اہل کتاب کی باتیں بتانے میں کعب احبار بہت سچے تھےمگر اس کے باوجودبھی کبھی کبھی ان کی بات جھوٹ نکلتی تھی اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ کعب احبار جھوٹ بولتے تھےبلکہ وہ اپنے طور پر تو پوری امانت داری سے کام لیتے مگرکیونکہ ان کی وہ معلومات ہی ان کتابوں سےتھی جن میں ردوبدل ہوچکا تھاتو انکی بعض معلومات غلط ثابت ہوجاتی تھی تو اس روایت سے تو یہ الزام ثابت ہونے کے بجائے رد ہوجاتا ہےکیونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تو انہیں صرف سچا نہیں بلکہ بہت سچا بتا رہے ہیں!

اور اگر یہ فرض کر لیں کہ یہ ان کے جھوٹ بولنے کی بات ہو رہی ہے تب بھی اس روایت میں ایسا کچھ نہیں جس سے یہ کہا جاسکے کہ وہ  اسرائیلی روایات کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرکے بیان کیا کرتے تھےبلکہ اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ وہ اہل کتاب سے احادیث نقل کرتےتھے۔

چوتھی بات:
جہاں تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کعب الاحبارسے ان باتوں کی روایت کا تعلق ہے جو وہ پچھلی کتابوں سے بتاتے تھےتو وہ بھی رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات(حدیث) کی روشنی میں تھا کیونکہ آپ ﷺ نے اس بات کی اجازت دی تھی۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ”میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ! اگرچہ ایک ہی آیت ہو اور بنی اسرائیل کے واقعات تم بیان کر سکتے ہو، ان میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کے ٹھکانے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔“(صحیح بخاری:3461)

مگرایسا نہیں کہ صحابہ کرام ان کی ہر بات قبول کرلیتے بلکہ جو بات شریعت کے مطابق ہوتی صرف و ہی قبول کرتے  کیونکہ یہ بھی آپ ﷺ  ہی کی تعلیم تھی جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اہل کتاب (یہودی) توراۃ کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے تھے لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تم تکذیب کرو بلکہ یہ کہا کرو (آمنا بالله وما أنزل إلينا) یعنی ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے۔“( صحیح بخاری:4485)

چنانچہ تمام اسرائیلیات ایک فیصلہ کن قاعدے کے تحت آتی ہیں کہ ان میں سے جس روایت کی شریعت اسلامیہ تصدیق کرے، اس کی تصدیق کی جائے اور شریعت اسلامیہ جس روایت کی تکذیب کرے، اس کی تکذیب کی جائے، اور اس کے علاوہ دیگر روایات کی تصدیق و تکذیب کے بارے میں توقف کیا جائے۔

آخرى بات:
اگر كعب احبار کی کوئی بات اللہ کے نبی ﷺ کی بات سے ٹکراتی تو صحابہ کرام سے ان پرردکرنا ثابت ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور کعب احبار کے درمیان جمعے کے دن کی قبولیت والی گھڑی کے بارے میں ہوا؛ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں طور پہاڑی پر آیا تو وہاں مجھے کعب احبار ملے تو میں اور وہ دونوں ایک دن تک ساتھ رہے، میں انہیں رسول اللہﷺکی حدیثیں بیان کرتا تھا، اور وہ مجھے تورات کی باتیں بیان کرتے تھے، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے۔۔۔۔۔۔اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ کسی مومن کو یہ گھڑی مل جائے اوروہ نماز کی حالت میں ہو اور اللہ سے اس ساعت میں کچھ مانگے تو وہ اسے ضرور دے گا“، کعب نے کہا:

یہ ہر سال میں ایک دن ہے، میں نے کہا: نہیں، بلکہ یہ گھڑی ہر جمعہ میں ہوتی ہے، تو کعب نے تورات پڑھ کر دیکھا تو کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔(سنن نسائی:1431)

یہ قصہ اس بات کی واضح گواہی دیتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کعب الاحبار سے جو کچھ سنتےتھے اس کی چھان بین کرتے تھے۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے