وضاحتِ شبہ:
حدیث میں آتا ہےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں سے ( کچھ ) پی لے تو اس کو سات مرتبہ دھو لو ( تو پاک ہو جائے گا)۔ (صحیح بخاری : 172، صحیح مسلم : 279)۔
شبہ یہ ہے کے کتے میں ایسا کیا ہے جو اس کے لیے ایسا خاص حکم جو کہ دیگر درندوں کے لئے نہیں ہے اور اس برتن کو صاف کرنے کے لئے مٹی کا ہی استعمال کیوں ضروری قرار پایا حالانکہ بعض اور ایسی اشیاء بھی ہیں جو برتن کو مٹی سے زیادہ صاف کر سکتی ہیں!۔
جوابِ شبہ
پہلی بات:
در اصل شرعی احکامات دو طرح کے ہوتے ہیں۔ تعبدی اور تعلیلی۔ تعبدی سے مراد وہ احکامات ہیں جن کی علت تک انسانی عقل کی رسائی ممکن نہیں جیسے کہ فجر کی نماز کا دو رکعت ہونا اور روزوں کا رمضان میں فرض ہونا۔ اب كيا انسانی عقل اس بات کا ادراک کر سکتی ہے کہ روزے صرف ماہِ رمضان میں ہی کیوں فرض ہیں؟
تعلیلی احکامات وہ ہوتے ہیں جن کی وجہ کا ادراک انسانی عقل کر سکتی ہو۔ جیسے کے زکاۃ جس کی علت نفس كو اور مال کو پاک کرنا بتلائی گئی ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ( التوبة:103 )
ترجمہ: آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان کے لئے دعا کیجئے۔
یہ بات واضح ہو جانے کے بعد ہمارے لئے یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ مذکورہ حدیث میں دیا گیا حکم تعبدی ہے کیونکہ شریعت میں اس حکم کی علت کا بیان نہیں۔ زیادہ سے زیادہ اس بات کا ادراک ممکن ہےکہ زیادہ دھونے میں اچھی طرح صفائی مقصود ہے لیکن اس مخصوص عدد کی تعیین کی حکمت الله تعالى احكم الحاكمين ہی جانتا ہے۔
دوسرى بات:
مذکورہ حدیث آپ ﷺ کے معجزات اور دلائلِ نبوت میں سے ایک ہے کہ آپ نے چودہ سو سال قبل وہ بات بتائی جو اس وقت کے وسائل کی مدد سے جاننا ممکن نہ تھا لیکن اس جدید سائنسی دور میں بہت سی تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ بیشمار خطرناک بیماریاں ایسی ہیں جو انسان میں کتے كے ذریعے سے منتقل ہوتی ہیں جن میں ریبیز (Rabies) جیسی مہلک بیماری بھی شامل ہے جس کی بنیادی وجہ کتے میں پائے جانے والے خطرناک جراثیم ہیں جو کہ زیادہ تر کتے کے لعاب کے ذریعے پھیلتے ہیں۔
تيسرى بات:
بعض ڈاکٹروں نے برتن کو سات بار دھونے کی وجہ یہ بتائی کہ کتوں کی آنتوں میں ایک باريک جراثيم ہوتا ہے جس کی لمبائی (4) ملی میٹر ہوتی ہے۔ تو جب کتا قضائے حاجت كرتا ہے تو اس کے فضلہ سے يہ جراثيم خاص مقدار میں نکلتے ہیں اور اس كى پشت کے بالوں سے چپک جاتے ہیں۔ پس جب کتا اپنی زبان سے خود کو صاف کرنا چاہے جیسا کہ اس کی عادت ہے تو اس کی زبان اور منہ اس سے آلودہ ہو جاتى ہیں تو جب وه کچھ كهاتا يا پيتا ہے تو اس شے تک يہ جراثيم با آسانى منتقل ہو جاتے ہیں۔
چوتھی بات:
رہی بات مٹی کے استعمال کی تو یہ بات بھی سائنسی تحقیقات و تجربات سے ثابت ہو چکی ہے کہ مٹی ہی وہ واحد مادہ ہے جس کے ذریعہ کتے کے لعاب میں پائے جانے والے ان خطرناک اور انتہائی چھوٹے حجم کے جراثیم کا پوری طرح خاتمہ ہو سکتا ہے جبکہ دیگر کسی بھی مادے میں یہ خوبی نہیں پائی جاتی۔
پانچويں بات:
مذکورہ حدیث میں دینِ اسلام کی حقانیت اور اس كا انسانوں كى بھلائى اور خير خواہی كا ضامن ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام نے انسان کی صحت کی حفاظت کے لیے کس قدر مؤثر اقدامات بتائے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسانی جان کا تحفظ ممکن ہے اور بہت سی بيماريوں سے بچا جا سکتا ہے۔