
وضاحت شبہ :
امام نسائی معاویہ بن ابى سفيان رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے قائل نہیں تھے اسی لئے اپنی کتاب (سنن نسائى)میں فضائل صحابہ کے باب میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے متعلق کوئی حدیث درج نہیں کی۔
جواب شبہ
صحابہ کرام کے تعلق سے دو طرح کے فضائل قرآن وحدیث میں مذکور ہیں:
صحابہ کے عمومی فضائل:
عمومی فضائل ہر اس عظیم ہستی کو حاصل ہیں جس نے حالت ایمان میںﷺکو دیکھا اور ایمان کی حالت میں ہی فوت ہوا۔جس نفس طیبہ کو اللہ کے رسول ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل ہو گیا اس کے حق میں کوئی اور مخصوص فضیلت ثابت نہ بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ اس کا تعلق ان نفوس طیبہ کے ساتھ جڑ گیا ہے جو روئے زمین پر انبیائے کرام کے بعد مقدس ترین ہستیاں ہیں۔یہ وہ جماعت ہے جس کے ہر ہر فرد کے لیے اللہ رب العالمین نےجنت کا وعدہ کر رکھا ہے۔
وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ
ترجمہ: اور ان سب سے اللہ تعالى نے اچھی جزا کا وعدہ کیا ہے.
یہ وہ گروہ ہے جس کے بارہ میں اللہ رب العالمین نے فرمایا :
رَضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ
ترجمہ: اللہ تعالى ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے.
صحابہ کے خصوصی فضائل:
اس سے مراد یہ ہے کہ صحابہ کی جماعت میں سے کسی ایک کے بارہ میں کوئی خاص فضیلت قرآن وحدیث میں وارد ہوئی ہوجیسا کہ عشرہ مبشرہ کی جماعت کو ایک ہی مجلس میں جنت کی بشارت حاصل ہوئی، غزوہ احد میں شرکت کرنے والےاور بيعت رضوان کرنے والےاور اہل بیت کے بارہ میں خصوصی فضائل وارد ہوئے ہیں اسی طرح بعض صحابہ کو انفرادی فضیلت سے نوازا گیاجیسا کہ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو اس امت کا امین قرار دیا گیا۔
بعض حضرات یہ تاثر دیتے ہیں کہ سیدنا معاویہ کی فضیلت میں کوئی خاص فضیلت وارد نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا صحابہ کے درمیان کوئی خاص مقام و مرتبہ نہیں تھا ۔
صحابہ میں سے کسی بھی صحابی کے بارہ میں کوئی خاص فضیلت کا وارد ہونا اگرچہ جزوی طور پر اس صحابی کو دیگر صحابہ سےممتاز کرتا ہےلیکن صحابی ہونے کے اعتبار سے سب کے سب برابر ہیں بالکل اسی طرح انبیاء میں سے بعض نبیوں کے بارہ میں خصوصی فضیلت وارد ہوئی ہے جیسے موسی کلیم اللہ،ابراہیم خلیل اللہ ہیں اور بعض انبیاء کے تعلق سے شریعت میں کوئی خاص فضیلت مذکور نہیں ہے جیسے زکریا علیہ السلام ہیں۔
جن انبیاء کے بارہ میں خصوصی فضیلت وارد ہوئی ہے اور جن انبیاء کے تعلق سے فضیلت وارد نہیں ہوئی سب کے سب نبی ہونے کے اعتبار سے برابرہیں۔
اس سے معلوم یہ ہوا کہ سیدنا معاویہ کے بارہ میں بالفرض کوئی خاص فضیلت وارد نہ بھی ہو تو صحابیت کا رتبہ ہی ان کی فضیلت کے لئے کافی ہے۔
جہاں تک سلف سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے خصوصی فضیلت کے انکار کی بات ہے اس میں چندشبہات پیش کیے جاتے ہیں، جن كى وضاحت درج ذيل سطور ميں پیش ہے:
پہلا شبہ:
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کی طرف یہ منسوب کیا جاتا ہے:
لا يصح عن النبي في فضل معاوية شيء
ترجمہ: معاویہ کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےکچھ بھی درست منقول نہیں۔
جواب شبہ
اس قول کی نسبت اسحاق بن راہویہ کی طرف درست نہیں کیوں کہ اس کی سند میں یعقوب بن یوسف بن معقل ابو فضل نیشاپوری راوی مجہول حال (نا معلوم ) ہیں. ديكھیں: تاريخ اسلام از امام ذهبى (6/643).
امام ابن عساکر نے امام اسحاق کا قول نقل کر کے اس پر تعاقب کیا ہے ان کے الفاظ یہ ہیں:
وأصح ما روي في فضل معاوية رضی اللہ عنہ حديث أبي حمزة، عن ابن عباس رضی اللہ عنہما أنه كاتبُ النبي صلی الله عليه وسلم، فقد أخرجه مسلمٌ في "صحيحه”، وبعده حديث العرباض: "اللهم علمه الكتاب”، وبعده حديث ابن أبي عميرة: "اللهم اجعله هاديًا مهديًّا (تاريخ دمشق 59/106)
ترجمہ: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں سب سے صحیح حدیث وہ ہے جسے امام مسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کیا ہے کہ وہ جب سے اسلام لائے رسول اللہ ﷺ کے کاتب تھے،پھر اس کے بعد سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ کی حدیث ہےکہ اے اللہ !معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتاب کا علم دے،پھر اس کے بعد عبد الرحمن بن ابی عمیرہ کی حدیث ہے کہ اے اللہ! معاویہ رضی اللہ عنہ كو ہدايت يافتہ اور دوسروں كى ہدايت كا سبب بنا۔
دوسرا شبہ
امام نسائی کی طرف ایک واقعہ منسوب کیا جاتا ہے جس کا خلاصہ یہ ہےکہ ان کے نزدیک بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت میں کوئی حدیث ثابت نہیں، اور وہ اپنے آپ کو باز پرس سے بچائیں یہ ہی ان کے لئے کافی ہے۔
جواب شبہ
یہ بھی محل نظر ہے کیونکہ علامہ ابن عساکر نے امام نسائی کا یہ قول نقل کرنے کے بعد فرمایا ہےکہ اس سے يہ ثابت نہیں ہوتا کہ امام نسائی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے سوئے ظن رکھتے تھے بلکہ اس قول کا مقصد یہ ہے کہ ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے۔اس کے بعد انہوں نے امام نسائی سے نقل کیا ہے کہ جب ان سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:
إنما الإسلامُ كدارٍ لها باب، فبابُ الإسلام الصحابة، فمن آذى الصحابة إنما أراد الإسلام، كمن نقر الباب إنما يريد دخول الدار، قال: فمن أراد معاوية فإنما أراد الصحابة (تاريخ دمشق 71/175)
ترجمہ: اسلام کی مثال گھر کی ہے جس کا ایک دروازہ ہے۔صحابہ کرام اسلام کا دروازہ ہیں۔جو کوئی صحابہ کو ایذا پہنچاتا ہے اس کا ارادہ اسلام کو ہدف بنانے کا ہے۔جیسے کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو وہ گھر میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔اسی طرح جو معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کرتا ہے وہ صحابہ کرام پر اعتراض کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تيسرا شبہ
كہا جاتا ہےکہ امام بخاری نے "الجامع الصحیح” میں فضائل صحابہ کے ضمن میں فرمایا ہے: (باب ذکر معاويہ رضی اللہ عنہ)جس سے بعض حضرات یہ تاثر دیتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مناقب میں ان کے نزدیک اگر کوئی حدیث صحیح ہوتی تو اس کا ذکر کرتے اور دیگر ابواب کی طرح (باب مناقب معاویہ رضی اللہ عنہ) یا (باب فضائل معاويہ رضی اللہ عنہ) باب ذکر کرتے.
جواب شبہ
یہ تاثر درست نہیں اس لیے کہ امام بخاری نے ان کے علاوہ بھی ( باب ذکر العباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ،باب ذکر طلحۃبن عبيد الله رضی اللہ عنہ ،باب ذكر اسامۃ بن زيد رضی اللہ عنہ ،باب ذكر مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ اور باب ذكر ابن عباس رضی اللہ عنہ) وغیرہم کے عنوان سے ذکر کیے ہیں۔ کیا ان کے فضائل میں بھی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے؟!
حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ امام بخاری نے اپنے شیخ امام اسحاق کے اس قول کی بنا پر کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مناقب میں کوئی حدیث صحیح نہیں،ان کے مناقب کا باب ذکر کرنے سے اعراض کیا ۔ فتح البارى:104/7
حالانکہ امام بخاری اپنی کتاب” الجامع الصحيح” (2924) میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے تعلق سے حدیث لے کر آئے ہیں:
أول جيش من أمتي يغزون البحر قد أوجبوا
ترجمہ: میری امت کا پہلا لشکر جو دریا کے راستے جہاد کرے گا،ان پر جنت واجب ہوگئی ہے۔
اور حافظ ابن حجر نے ہی نقل کیا ہے:
هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر (فتح البارى:102/6)
ترجمہ: اس حدیث میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت ہے کیوں کہ انہوں نے ہی سب سے پہلے بحری جہاد کیا ہے۔
گزشتہ وضاحتوں کے بعدصحیح احادیث کی روشنی میں سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب ملاحظہ ہوں:
٭سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے راستہ میں پہلے بحری بیڑے کے کمان کی ذمہ داری سنبھالی:
رسول ﷺ کا فرمان گرامی ہے:
أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا (صحیح بخاری:2924)
ترجمہ: میری امت کا پہلا گروہ جو سمندری جہادکرے گا،اس نے(مغفرت وجنت)کو واجب کر لیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قوله: "قد أوجبوا”، أي: فعلوا فعلا وجبت لهم به الجنة (فتح الباری 6/103)
ترجمہ: نبی اکرم ﷺ کے فرمان واجب کر لیا سے مراد ہے کہ انہوں نے وہ کار خیر سر انجام دیا ،جس کی بناپر ان کے لیے جنت واجب ہوگئی۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ پہلا لشکر جسے سمندری جہاد کی سعادت حاصل ہوئی وہ جنتی ہےجبکہ اس بات پر امت کااتفاق ہے کہ اس لشکر کے کمانڈر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ التمہيد لابن عبد البر (1/242).
٭سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ ﷺ کی دعائیں:
سیدنا عبد الرحمن بن ابی عمیرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به ولا تعذبه (جامع ترمذي:3842،التاريخ الكبير للبخاري7/326مسند احمد:117892 السلسلة الصحيحة:1969)
ترجمہ: اے اللہ توان كو ہدایت دےاور ہدایت یافتہ بنادے اور ان کے ذریعہ انسانیت کو ہدایت دے،انہیں عذاب سے بچا۔
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے رسول اللہ ﷺ کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے سنا:
اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذاب (مسند احمد:17152 صحیح ابن خزیمة:1938، صحيح ابن حبان:7210)
ترجمہ: اے الله! معاویہ كو قرآن كريم كی تفسیر اور حساب سكها دے اور عذاب سے بچالے۔
٭سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ كو كاتب وحی ہونے كا اعزاز وشرف حاصل تها۔
امام بیهقی نے بسند صحیح ابن عباس رضی اللہ عنہماسے نقل كیا ہے:
كان يكتب الوحي (دلائل النبوة:6/243)
ترجمہ: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ وحی كے كاتب تهے۔
٭سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ كو رسول الله ﷺ نے ا پنی زندگی ہی میں مسلمانوں كی امارت كی خوشخبری اور اس میں پیش آنے والی مشكلات كے بارے میں اطلاع فرما دیاتها۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ایك بار رسول الله ﷺ كو وضو كروا رہے تهےتو آپ ﷺ نے ایك یا دو دفعہ سر مبارك اوپر اٹهاكر فرمایا:
يا معاوية! إن وليت أمرا فاتق الله واعدل (مسند أحمد:16933، مسند أبو یعلی:7342)
ترجمہ: اے معاویہ!اگر تمہیں امیر بنادیا جائے تو الله سےڈر تے رہنا اور عدل كرنا۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ جب سے میں نے آپ ﷺ سے یہ سنا تو میں سمجهتا تها كہ میں اس خلافت وامارت كے عمل میں آزمایا جاؤں گا۔
بلكہ سیدنا جابر بن سمره رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
لا يزال هذا الدين قائما حتى يكون عليكم اثنا عشر خليفة كلهم تجتمع عليه الأمة (سنن أبو داود:4279)
ترجمہ: یہ دین قائم اور غالب رہے گا ،حتی كہ تم پر باره خلیفے ہوں گے جن سب پر امت اكٹهی ہوگی۔
خلافت راشده كی مدت رسول الله ﷺ نے تیس سال بیان كی ہے جو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ كی خلافت پر مكمل ہوجاتی ہے،اس كے بعد آپ ﷺ نے فرمایا كہ ملوكیت كا دور ہوگا،جس كی ابتداء سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے ہوتی ہے ، آپ ﷺ نے(خلافہ النبوة)كے بعد كے امراء اور حكمرانوں كو بهی اس حدیث میں خلیفہ كہا ہے-اگرچہ وہ بادشاہ تھے اور انبیاء کے جانشین نہ تھے-اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں خلفاءکہناجائز ہے،اور اس حدیث میں یہ بهی فرمایا ہے كہ(تجتمع عليه الأمة)ان كی خلافت پر امت كا اتفاق ہوگا۔
ان تمام حدیثوں سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ كی صحابہ کے ما بین خصوصی فضیلت اور ان کامقام ومرتبہ روز روشن كی طرح واضح ہو جاتا ہے ان حدیثوں كا انكار ایک واضح اور کھلی حقیقت کا انکار ہےجس کی جرأت ایک عقلمند انسان نہیں کر سکتا اور اس سب سے بڑھ كر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ كو شرف صحبت حاصل ہے جس سے بڑھ كر اس امت میں كوئی فضیلت ومنقبت نہیں۔
اسى طرح سلف صالحين كے عقائد كى كتابوں ميں حضرت معاويہ رضى اللہ عنہ كے فضائل كے بارے ميں خصوصى ابواب (Chapters) قائم كيے گئے ہیں، بطور مثال امام ابو بكر محمد بن الحسين الآجرى (وفات 360هـ) نے اپنى مايہ ناز با سند كتاب "الشريعة” ميں حضرت معاويہ رضى اللہ عنہ كے فضائل ومناقب پر پورے دس عنوانات قائم كيے. ديكھیں: الشريعة للآجرى (2 /525).
حضرت ربیع بن نافع (وفات 241هـ) فرماتے ہیں: (معاویہ اصحابِ رسول ﷺ کا ایک پردہ ہیں، جب کوئی شخص اس پردے کو کھول دے گا تو اس کے پیچھے کے لوگوں پر اس کی جرأتیں بڑھ جائیں گی (یعنی اس کی زبان ديگر صحابہ کے خلاف بھی دراز ہو جائے گی ). تاريخ بغداد (1 /577).
عظيم محدث اور زاهد امام عبد اللہ بن مبارک (وفات 181هـ) فرماتے ہیں: (معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے نزدیک عدالتِ صحابہ کے بارے میں لوگوں کے عقائد کو آزمانے کا پیمانہ ہیں، چنانچہ جو معاویہ رضی اللہ عنہ پر غلط نگاہ ڈالے گا ہم اسے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں غلط رائے رکھنے والا تصور کریں گے). تاريخ دمشق (59 /209).
اس كے علاوہ بھی سلف صالحين سے اس قسم كے اقوال ملتے ہیں، والله الموفق.