کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ(نعوذ بالله) باغی تھے ؟

کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ(نعوذ بالله) باغی تھے ؟

وضاحتِ شبہ :
حدیث میں ہے کہ سیدنا عماربن ياسر  رضی اللہ عنہ کو باغی گروہ قتل کرے گا،  اور سیدنا عمار كى شہادت معركہ صفين كے موقع پر ہوئی ، وه سيدنا  علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے ،  چنانچہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے  کہ علی رضی اللہ عنہ  کے مقابلہ پر آنے والا لشكر جو كہ امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ كى قيادت ميں تھا وه  باغی تھا۔
جوابِ  شبہ

 

سب سے پہلے پوری حدیث کو ملاحظہ فرمائیں ۔

عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے  روایت ہے، انھوں نے  عکرمہ اور اپنے صاحبزادے علی بن عبداللہ سے فرمایا کہ تم دونوں ابو سعید رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے حدیث سنو، چنانچہ وہ دونوں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ وہ (سیدنا ابو سعید خدری) اور ان کے بھائی اپنے باغ کو پانی دے رہے تھے، جب انھوں نے ہمیں دیکھا تو تشریف لائے اور اپنی چادر لپیٹ کر بیٹھ گئے، اس کے بعد فرمایا کہ ہم مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے ایک ایک اینٹ اٹھا کر لارہے تھے جبکہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ  دواینٹیں اٹھا کر لارہے تھے۔ اچانک نبی کریم ﷺ کا گزر ان کے پاس سے ہوا تو آپ نے ان کے سر سے غبار جھاڑتے ہوئے فرمایا:

وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، عَمَّارٌ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّار    ( صحیح بخاری:2812 ، صحیح مسلم:2915 )

ترجمہ: افسوس! عمار(رضى اللہ تعالیٰ عنہ) کوا یک باغی گروہ قتل کرے گا۔ عمار انھیں اللہ کی طرف دعوت دیں گے اور وہ انھیں آگ کی طرف بلائیں گے۔

مذکورہ حدیث  میں جس باغی گروہ کا ذکر ہے ، اسے درج ذیل چند نکات کی روشنی میں بیان کیا جاتا ہے ۔

پہلی بات:
نبی کریم ﷺ کی نے  یہ بات اس وقت   فرمائی جب مسجد نبوی کی تعمیر  ہو رہی تھی، اور سیدنا عمار کو جنگ صفین میں شہید کیا گیا۔ جنگ صفین 37ہجری میں سیدنا علی رضی اللہ  عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہوں کے درمیان ہوئی تھی۔ سیدنا معاویہ اس وقت شام کے گورنر تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت تھے۔  جنگ صفین کا پس منظر اگر شیعی کتب کی روشنی میں دیکھا جائے تو “نہج البلاغہ “میں سیدنا علی کا خط مذکور ہے جو جنگ صفین  کے بعد مختلف شہروں کی طرف لکھا گیا جس میں سیدنا علی لکھتے ہیں :

 وكان بدء أمرنا أنا التقينا والقوم من أهل الشام، والظاهر أن ربنا واحد، ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة، لا نستزيدهم في الايمان بالله والتصديق برسوله(صلى الله عليه وآله)، ولا يستزيدوننا، الامر واحد، إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان، ونحن منه براء! فقلنا: تعالوا نداو ما لا يدرك اليوم بإطفاء النائرة، وتسكين العامة، فمن تم على ذلك منهم فهو الذي أنقذه الله من الهلكة، ومن لج وتمادى فهو الراكس الذي ران الله على قلبه، وصارت دائرة السوء على رأسه. ( نھج البلاغہ:خط نمبر 58 )

ترجمہ: ہمارے معاملہ کی ابتدا یہ تھی کہ ہم اور اہل شام میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوئے۔ دراں حالیکہ ظاہری بات ہے کہ ہمارا رب ایک ہے، ہمارا نبی ایک ہے اور ہماری دعوت اسلام ایک ہے۔  اللہ اور رسول پر ایمان و تصدیق میں  فریقین ایک دوسرے سے بڑھ کر نہیں تھے ۔ اصل اختلاف ایک ہی تھا جوکہ سیدنا عثمان کے خون کا معاملہ تھا۔ جبکہ ہم اس سے بری ہیں۔ ہم نے اس کا حل یہ پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہو سکتا ہے، اس کا وقتی علاج یہ کیا جائے کہ آتش جنگ کو خاموش کر دیا جائے اور لوگوں کو جذبات کو پرسکون ہو لینے دیا جائے۔ اس کے بعد جب حکومت کو استحکام حاصل ہو جائے گا اور حالات سازگار ہو جائیں گے تو ہم اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ حق (ترجمہ  قصاص) کو اس کے مقام پر رکھ لیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس کا علاج صرف جنگ ہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ نے اپنے پاؤں پھیلا دیے اور جم کر کھڑی ہو گئی۔ شعلے بھڑک اٹھے اور مستقل ہو گئے۔ سب نے دیکھا کہ جنگ نے دونوں فریقوں کو دانت سے کاٹنا شروع کر دیا ہے اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پر آمادہ ہو گئے اور میں نے بھی ان کی بات کو مان لیا اور تیزی سے بڑھ کر ان کے مطالبہ صلح کو قبول کر لیا۔ یہاں تک کہ ان پر حجت واضح ہو گئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہو گیا۔ اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا تو گویا اپنے آپ کو ہلاکت سے نکال لے گا ورنہ اسی گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہو گا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔ گردش ایام اسی کے سر پر منڈلا رہی ہو گی۔

بہرحال اس جنگ میں بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوا لیکن اس کے باوجود دونوں میں سے کسی ایک گروہ کو بھی باطل ، کافر ، ظالم وغیرہ نہیں کہا جاسکتا۔  دونوں گروہ میں صحابہ تھے ، صحابہ سے بشرى لغزشیں ہونا ممكن ہے اور اس كےباوجود  وه سب جنتی ہیں ۔ دین اسلام کی تعلیمات کی رو سے کسی صحابی ، ازواج مطہرات  اور اہل بیت کے  بارے میں  زبان درازی کی اجازت نہیں بلکہ ایسے شخص  کا ایمان سالم نہیں رہتا۔

دوسری بات:
باغی گروہ  سے یہ مفہوم لینا کہ اس کا معنی ظالم ، کافر   وغیرہ ہیں یہ معنی غلط ہے اس کی وضاحت قرآن کریم سے ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ارشادی  باری تعالی ہے :

وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ * إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ( سورۃ الحجرات:9،10 )

ترجمہ: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے کے ساتھ زیادتی کرے تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کر رہا ہو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ چنانچہ اگر وہ لوٹ آئے، تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرادو، اور (ہر معاملے میں) انصاف سے کام لیا کرو، بیشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، اس لیے اپنے دو بھائیوں کے درمیان تعلقات اچھے بناؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ایک گروہ کے لیے دو مرتبہ بغاوت کے الفاظ استعمال ہونے کے باوجود ان کے لیےصلح کی بات کی گئی ہے اور دونوں گروہوں کو مومن قرار دیا گیا ہے۔ لہذا ان لڑائیوں کو ایمان و کفر کی لڑائی قرار دینا غلط ہے۔

مزید یہ کہ صحیح بخاری میں سیدنا حسن بن على  رضی اللہ عنہمانے معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی تھی ۔ اور اس صلح کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے یوں فرمايا تھا:

إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ ( صحیح البخاری:2704 )

ترجمہ: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا.

اس صلح کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو  پیشن گوئی فرمائی تھی، وه حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی اور اس سے مسلمانوں کی باہمی خون ریزی رک گئی۔

تیسری بات:
اس حديث کے بارے میں  اہل علم  كے اقوال ملاحظہ كريں:

امام نووی فرماتے ہیں: (علماء اس حدیث کے بارے میں یہ حدیث بظاہر دلیل ہے کہ سیدنا علی حق پر اور صائب تھے، جبکہ دوسرا گروہ باغی تھا لیکن  ان كا بھی یہ اجتہاد تھا اس لیے ان پر کوئی گناہ نہ ہوگا)۔   شرح صحيح مسلم (18/40)

علامہ ابن بطال  حديث: ” وہ گروہ انہیں جہنم کی طرف اور عمار ( بن ياسر )انہیں اللہ  کی طرف بلائیں گے”  کا مفہوم بیان  فرماتے ہیں :

(اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے سے مراد یہ ہے کہ ال مکہ جنہوں نے سیدنا عمار کو نکالا اور تکلیفیں دی اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کی وجہ سے اس حدیث  سے مسلمان مراد نہیں لیےجاسکتے۔ اس لیے کہ وہ اللہ کی دعوت میں داخل ہیں اور نبی کریم کا فرمان کہ وہ لوگ عمار کو جہنم کی طرف بلائیں گے بھی اس پر دلیل ہے کیونکہ مشرکین مکہ نے انہیں آزمائش میں مبتلا کیاور دین سے پھجانے کا مطالبہ کیا جوکہ جہنم میں جانے کے مترادف ہے اور اگر یہ کہاجائے کہ عمار کو دی گئیں تکالیف تو اسلام کے ابتدائی دور میں تھیں تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ نبی کریم ﷺ نے الفاظ مستقبل کے استعمال فرمائے ہیں لیکن معنی ماضی کا ہی مراد ہے کیونکہ عرب کبھی فعل مستقل کے بارے ماضی کے الفاظ کے ساتھ اور کبھی ماضی کے بارے میں مستقبل کے الفاظ استعمال کرجاتے ہیں لہذا "يدعوهم إلى الله” کا معنی   "دعاهم إلى الله” ہوگا کیونکہ عمار کی مکہ میں اس حوالے سے کوششیں مشہور ہیں نبی کریم ﷺ نے ماضی کی شدت کا تذکرہ اس وقت کیا جب وہ دو اینٹیں اٹھانے کی شدت برداشت کررہے تھے ، مقصود سیدنا عمارکی فضیلت اور ثابت قدمی کوبیان کرنا تھا)۔ ( شرح ابن بطال لصحیح بخاری:حدیث 2812 )

لہذا حدیث کے بعض طرق میں الفاظ: يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ  کا مفہوم واضح ہوگیا۔

چوتھی بات:
روایات کو جمع کرکے یہ توضیح بھی ممکن ہے کہ گروہ تین تھے:
۱۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ
۲۔ علی رضی اللہ عنہ کا گروہ
۳۔ باغی گروہ  جوکہ خارجیوں کا گروہ تھا اور یہ گروہ سیدنا عثمان  بن عفان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والا بھی تھا انہی سے بغاوت کا آغاز ہوا تها، اس کی دلیل یہ ہے کہ  امام بخاری ایک حدیث ذکر کرتے ہیں  کہ عمار بن یاسر فرماتے ہیں کہ مجھے دو مسلمان گروہوں کے درمیان شہید کیا جائے گا  (تاریخ کبیر)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باغی گروہ تیسرا گروہ تھا جو کہ مالک اشتر ، عبداللہ بن سبا وغیرہ  ۔ یہ لوگ صلح نہیں چاہتے تھے اور تصادم چاہتے تھے سیدنا علی نے ایک موقع پر لڑائی سے پہلے فرمایا تھا کہ قاتلین عثمان ہمارے ساتھ نہ جائیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتلین عثمان  رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود تھے جن کا اندازہ سیدنا علی کو تھا اسی لیے تنبیہ کی اور یہی گروہ باغی گروہ تھا جنہوں نے رات کو ہی حملہ کردیا تھا۔   اس کی مزید تائید کے لیے صحیح مسلم کی روایت سے بھی مسئلہ واضح ہوجاتا ہے  چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

تَـمْرُقُ مَارِقَةٌ في فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ، فَيَلِي قَتْلَهُمْ أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ ( صحیح مسلم:1064 )

ترجمہ: مسلمانوں میں افتراق کے وقت تیزی سے (اپنے ہدف کے اندر سے) نکل جانے والا ایک گروہ نکلے گا، دو جماعتوں میں سے جو جماعت حق سے زیادہ تعلق رکھنے والی ہوگی، (وہی) اسے قتل کرے گی۔

پانچویں بات:
اس حدیث کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے موقف کی روشنی میں بھی سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا  تو انہوں نے فرمایا :

قتلانا وقتلاهم في الجنة   (مصنف ابن ابی شیبہ : 15/303 ، سنن سعید بن منصور : 2/398)

ترجمہ: ہمارے اور ان کے مقتولین جنتی ہیں۔

مزید اس معاملے میں اہل علم کی رائے بھی یہی رہی ہے جیساکہ امام شعبی فرماتے ہیں:

هُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ، لَقِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا فَلَمْ يَفِرَّ أَحَدٌ مِنْ أَحَدٍ  ( البدایہ والنہايہ:10/559 )

ترجمہ: وہ سب جنتی ہیں وہ ایک دوسرے سے لڑے ان میں سے کوئی بھی میدان چھوڑ کرنہیں بھاگا۔

عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں :
میں نے خواب میں رسول اللہ   ﷺ کو دیکھا حضرت ابو بکر  رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے میں نے سلام عرض کیا اور بیٹھ گیا ۔ میں بیٹھا ہی تھا کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ کو لایا گیا ۔ ان دونوں کو ایک کمرے میں داخل کیا گیا اور دروازہ بند کردیا گیا۔ میں دیکھ رہا تھا جلد ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ باہر آئے وہ فرمارہے تھے رب کعبہ کی قسم میرے حق میں فیصلہ ہوا۔پھر جلد ہی حضرت معاویہ باہر آئے اور وہ فرمارہے تھے رب کعبہ کی قسم مجھے معاف کردیا گیا۔ ( البدایہ والنہايہ: 11/427)

شیخ الاسلام بن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ آخر کار حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت اور لڑائی سے بچنے کے طلب گار تھے۔ جیساکہ حضرت معاویہ ابتداء ہی سے جنگ سے گریزاں تھے، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے مابین لڑائی اگرچہ اجتہاد کی بنا پر ہوئی لیکن یہ اس نوعیت کی جنگ نہ تھی ، جس میں حصہ لینے والے گویا اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والے ہیں ، بلکہ حضرت علی سے یہ بات بھی منقول ہے کہ وہ تو ان حروب میں علیحدہ رہنے والوں کے بارے میں فرمایا کرتے کہ یہ خوبی انہی کی ہے جس مقام پر عبداللہ بن عمر اور سعد بن مالک کھڑے ہیں اگر وہ اچھا ہے تو اس کا بہت بڑا اجر ہے اور اگر یہ برا ہے تو اس کا نقصان بہت کم ہے۔ ( منہاج السنۃ:3/180 )

سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے بيٹے  حسن سے فرمایا کرتے تھے کہ تمہارے باپ کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ معاملہ اس حد تک طویل ہوجائے گا ، کاش تیرا باپ اس سے بیس سال پہلے مرگیا ہوتا۔ ( السنۃ لابن احمد:2/555 )

بلکہ سیدنا علی رضی اللہ عن بالآخریہ سمجھتے تھے کہ لڑنے کی بجائے نہ لڑنے میں مصلحت زیادہ ہے ۔ اور انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ معاویہ کی امارت کو ناپسند نہ کرو اگر انہیں گنوادیا تو تم سروں کو دھڑ سے جدا ہوتے ہوئے دیکھو گے۔ ( منہاج السنۃ:3/180 )

جنگ کے دوران فریقین مقتولین کی مل کر تدفین کرتے۔ ( البدایہ:7/278 )

ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ  اور دیگر اہل علم دونوں گروہوں کو جنتی مانتے ہیں اور تیسرے گروہ کے بارے میں صحیح مسلم کی حدیث گزر چکی ہے۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے