کیا عورت فتنہ ہے ؟

کیا عورت فتنہ ہے ؟

وضاحت ِ شبہ :
احادیث میں عورت کو فتنہ قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے :
ما تركت بعدي فتنة أضر على الرجال من النساء
رسول کریم ﷺنے فرمایا: میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر نقصان دینے والااور کوئی فتنہ نہیں چھوڑاہے۔(صحیح البخاری 5096)
جبکہ نبی کریم ﷺ عورت کے بارے میں اس قسم کے کلمات استعمال نہیں کرسکتے۔
جواب شبہ

 

پہلى بات:
معترضین کا اعتراض یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ عورت کو فتنہ کیسے قرار دے سکتے ہیں ؟  اس اعتراض سے پہلے انہیں فتنے کا معنی اور مفہوم جاننا چاہیے عربی زبان میں یہ لفظ کئی معانی میں استعمال ہوا ہے ،  جن میں سے ایک ابتلاء ، امتحان ، آزمائش ہے ۔اس معنی میں عورت مرد کی آزمائش و امتحان کا سبب بن سکتی ہے ، یقیناً جس کی  مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں ، اس میں اس کا حسن و جمال یا اس کے نان و نفقے کے حوالے سے مرد کی ذمہ داریاں  یا اس کی نزاکت کے باعث مرد کی پریشانیاں وغیرہ بھی شامل ہوسکتی ہیں، عورت كى نزاکت کی وجہ سے اسے جب صنف نازک کہا جاتا ہے تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔

دوسرى بات:
اس حدیث میں ہر عورت کو فتنہ نہیں کہا گیا کیونکہ احادیث میں تو جابجا عورت کی شان وعظمت بیان ہوئی ہے، ایک حدیث میں نیک عورت کو مرد کے  لیے دنیا کا بہترین سامان قرار دیا گیا، رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے :

الدنیا متاع وخیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحة  ( صحیح مسلم : 1467 )

ترجمہ: دنیا ساز وسامان ہے اور دنیا کا بہترین سامان نیک عورت ہے

  اسى طرح دین اسلام نے عورت سے نکاح کے لیے جو معیار مقرر کیا ہے اس میں سب سے بنیادی خوبی جسے تلاش کرنے کا حکم ہے وہ نیک نامی اور دین داری ہے۔ ( صحیح بخاری :5090، صحیح مسلم :1466 )

ان دونوں قسم کی احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر عورت مرد کے لیے دين ميں فتنہ کا باعث نہیں بنتی بلکہ وہی عورتیں بنتی ہیں جو نیک وصالح نہ ہوں۔ 

تيسرى بات:
اگر کج فہمی سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے تو یہ اعتراض تو قرآن کریم پر بھی وارد ہوگا کیونکہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ  ( آل عمران: 14 )

ترجمہ: لوگوں کے لیے نفسانی خواہشوں کی محبت مزین کی گئی ہے، جو عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان لگائے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی ہیں۔ یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اللہ ہی ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔

چنانچہ جن چیزوں کی محبت وخواہش میں مبتلا ہو کر کوئی شخص دنیا سے دل لگاتا ہے اور اپنے رب کو بھول جاتا ہے، ان چیزوں میں سب سے پہلے عورت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

 چوتھی بات :

اگر حدیث میں استعمال ہونے والا لفظ ’’فتنۃ‘‘ قابل اعتراض ہے تو قرآن کریم میں یہ لفظ اولاد کے لیے، مرد کے لیے، مال کے لیے بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ( الانفال:28 )

ترجمہ: اور جان لو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد ایک آزمائش کے سوا کچھ نہیں اور یہ کہ یقیناً اللہ تعالى کے پاس اجر عظیم ہے۔

مال اور اولاد کی محبت ہی عام طور پر انسان کو خیانت اور اللہ تعالى اور رسول ﷺ کی اطاعت سے گریز کرنے پر آماده کرتی ہے ۔ اس لئے ان کو فتنہ (آزمائش) قرار دیا گیا ہے، یعنی اس کے ذریعے سے انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ ان کی محبت میں امانت اور اطاعت کے تقاضے پورے کرتا ہے یا نہیں؟

وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ ( الفرقان:20 )

ترجمہ: اور ہم نے تم میں سے بعض کو بعض کے لیے باعث آزمائش بنایا ہے (تاکہ دیکھیں) کیا تم صبر کرتے ہو؟۔

یعنی اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیج کر لوگوں کو آزمائش میں ڈال کر ہر ایک کو خوب جانچتا ہے۔ ایمان لانے والوں کو بھی اور کافروں کو بھی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ ( التغابن:14 )

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بے شک تمھاری بیویوں اور تمھارے بچوں میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، سو ان سے ہوشیار رہو۔

بیویوں اور اولاد کی محبت فطرى ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسی محبت کے بارے میں نصیحت کی ہے جو ان کے لیے بیوی اور اولاد کے ایسے مطالبات کے سامنے جھکنے کا موجب بنتی ہے جس میں کوئی شرعی ممانعت ہو۔

چنانچہ ان دلائل سے معلوم ہوا کہ یہ لفظ صرف عورت کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ دیگر کے لیے بھی ہوا ہے۔

 

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے