کیا حضرت معاویہ رضى الله عنه وحی کے کاتب تھے؟

وضاحت شبہ:
سیدنا معاویہ بن ابى سفيان رضی اللہ عنہ کی شخصیت سے متعلق اعتراضات میں سے  ایک مشہور اعتراض یہ کیا جاتا ہے  کہ آپ کا شمار کاتبین وحی (قرآن وحديث لكھنے والے) میں نہیں ہوتا۔
جواب شبہ

 

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے کاتب  وحى ہونے کے تعلق سے تین طرح کى روايات ہمیں ذخیرہ احادیث سے ملتى ہیں:

پہلی قسم :
ان روايات کی ہے جن میں یہ ذكر ہےکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ رسول ﷺ کے کاتب تھے (وحى لكھتے يا خطوط؟ اس كا ذكر نہیں)۔

پہلی دلیل:  عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے نبى اكرم ﷺ کے سامنے چند گزارشات پیش کیں ان میں سے ایک گزارش یہ تھی کہ:

…ومعاوية تجعلُه كاتبًا بين يديك، قال: نعم

ترجمہ: معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا کاتب بنا لیجیئے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے. ( صحيح مسلم:2501 )

دوسری دلیل: عبداللہ بن عمرو بن العاص رضى الله عنہما معاويہ رضى اللہ عنہ كے بارے ميں كہتے ہيں:

وَكَانَ كَاتِبَهُ    ( مسند احمد:2651 )

ترجمہ: سیدنا معاویہ اللہ کے رسول ﷺ کے کاتب تھے۔

دوسری قسم:
ان روايات کی ہےجن میں صراحت کے ساتھ خطوط ورسائل لکھنے كا ذكر ہے، سنن ابوداود کی حدیث میں یہاں تک موجود ہے کہ جب دو صحابی رسالت مآب ﷺ کے پاس اپنی کوئی حاجت لے کر آئے تو رسول ﷺ نے نا صرف یہ کہ معاویہ کو لکھنے کا حکم دیا بلکہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے لکھ لیا تو آپ ﷺ نے اپنی مہر بھی ثبت کی اور حکم دیا کہ یہ تحریر دونوں کے حوالہ کردیں. ديکھیں: ( سنن ابو داود: 1629 )

تیسری قسم:
ان احاديث کی ہے جن میں وحی لکھنے كا ذكر ہے۔ عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

وَكَانَ يَكْتُبُ الوَحْيَ   ( دلائل النبوة للبيہقى:6/243 )

ترجمہ:  سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی تھے۔

ان تینوں اقسام کى ذكر كرده احاديث مستند ہیں ۔

جہاں تک ان روايات کے معنى ومفہوم کی بات ہے تو اس میں بھی تعارض وتناقض کی کوئی صورت نہیں بنتی، تعارض تو تب ہوتا جب کسی ایک روايت میں کسی بات کا اثبات ہوتا اور اسی کی نفی دوسری روايت میں ہوتی۔ مثلا اگرکسی حدیث میں یوں ہوتا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مراسلات کے کاتب تھے اور دوسری حدیث میں یوں ہوتا کہ سیدنا معاویہ وحی کے کاتب نہیں تھے تو پھر اعتراض کی صورت بنتی تھی، یہاں تو واضح الفاظ کے ساتھ عبد الله بن عباس فرما رہے ہیں کہ سیدنا معاویہ وحی کے کاتب تھے۔

لہذا درج بالا نصوص وروايات کے فہم کی صحیح صورت یہ ہی بنتی ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کے مراسلات اور وحی دونوں کا کاتب تسلیم کیا جائے ورنہ کسی بھی ایک قسم کى روايات کا ترک لازم آئے گا، اور اسی لیے ان نصوص کی روشنی میں سلف صالحین کا اتفاق ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار بھی کاتبین وحی میں ہوتا ہے۔

اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ صرف مراسلات کے کاتب تھے تب بھی ان کی فضیلت کے ثبوت کے لئے یہ بات کافی ہے، کیوں کہ مراسلات کے کاتب ہونے کے لئے امانت دار اور قابل بھروسہ ہونا ضروری ہے کیوں کہ مراسلات کی بنیاد پر بہت سے اہم امور کا دار ومدار ہوتا ہے ۔ اگر مراسلات کی ذمہ داری ایسے شخص کے سپرد کردی جائے جو غیر امین ہو تو اس سے بہت سا خلل واقع ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔

اور جہاں تک نبی کریم ﷺ  کے مراسلات کی بات ہے اس کی مختلف اقسام تھیں؛ بعض مراسلات وہ تھے جو غیر مسلم بادشاہوں اور امراء کی طرف دعوت دین کی غرض سے ارسال کیے جاتے تھے اور دین چونکہ اللہ تعالی کی وحی کا نام ہے لہذا ایسے خطوط کی کتابت وحی کی کتابت میں شمار ہوگی۔

دوسری نوعیت ان خطوط کی ہے جو دنیاوی وسیاسی نقطہ نظر سے بھیجے جاتے تھے جیسے کسی کو کسی علاقہ کا امیر مقرر کرنا یا جہادی مہم جوئی میں امیر لشکر کی طرف کوئی خط ارسال کرنا۔

سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا کاتب وحی ہونا اس قدر مسلم امر تھا کہ سلف صالحین نےاس مسئلہ کو کتب العقائد میں نہ یہ کہ صرف ذکر کیا بلکہ اس پر اجماع (مكمل اتفاق) بھی نقل کیا ہے۔

امام احمد سے دریافت کیا گیا کہ آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو یہ کہتا ہے کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی تسلیم نہیں کرتا؟ انہوں نے فرمایا:

هَذا قَوْلٌ سُوْءٌ رَدِيءٌ، يُجانَبُونَ هَؤُلاءِ القَوْمِ، ولا يُجالَسُونَ، ونُبَيِّنُ أمْرَهُمْ لِلنّاس   ( السنہ للخلال:2/434 )

ترجمہ: یہ انتہائی برا اور ردی  قول ہے ایسا خیال رکھنے والوں سے لوگوں کو بچنا چاہیے۔ان کے پاس بیٹھنا بھی نہیں چاہیے۔ عوام الناس کو ایسے لوگوں سے خبردار كرنا چاہیے ۔

امام ابو بكر الآجری فرماتے ہیں:

مُعاوِيَةُ كاتبُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَلى وحْيِ اللَّهِ وهُوَ القُرْآنُ بِأمْرِ اللَّهِ عز وجل   ( الشريعة:2428/5 )

ترجمہ:  (معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ پر اتارى گئی اللہ عزوجل کی وحی کے کاتب ہیں اور ( ان کا لکھا ہوا) اللہ عزوجل کے حکم سے قرآن ہے)۔

امام ابن بطہ العُكْبَري اپنی کتاب (الإبانة الصغرى)میں لکھتے ہیں:

وتترحم على أبي عبد الرحمن معاوية بن أبي سفيان،أخي أم حبيبة زوجة رسول الله، خال المؤمنين أجمعين وكاتب الوحي  ( الإبانة الصغرى:177 )

ترجمہ:  اور آپ ابو عبد الرحمن معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے لئے رحمت کی دعا کریں جو اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ مؤمنوں کی ماں ام حبیبہ کے بھائی اہل ایمان کے ماموں اور کاتب وحی ہیں۔

ابو القاسم الاصبہانى فرماتے ہیں:

وأن مُعاوِيَة بن أبي سُفْيان كاتب وحي اللَّه وأمينه، ورديف رَسُول الله ﷺ وخال المُؤمنين  ( الحجة في بيان المحجة:1/248 )

ترجمہ: اور اس میں کوئی شک نہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اللہ تعالى کی وحی کے کاتب اور وحی کے امین ہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ آپ کی سواری پر پیچھے سوار ہونے والے ہیں اور مؤمنوں کے ماموں ہیں۔

علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:

ومعاوية خال المؤمنين، وكاتب وحي الله، أحد خلفاء المسلمين  ( لمعة الاعتقاد:39 )

ترجمہ: معاویہ رضی اللہ عنہ  اہل ایمان کے ماموں، اللہ تعالى کی وحی کے کاتب ،اورمسلمانوں کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ ہیں۔

 مؤرخین نے بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں کاتب وحی ہونے کو بطور خاص ذکر کیا ہے۔

علامہ ابن عساکر  (تاریخ دمشق)میں فرماتے ہیں:

معاوية بن صخر أبي سفيان بن حرب ……خال المؤمنين، وكاتب وحي رب العالمين، أسلم يوم الفتح    ( تاريخ دمشق: 59/55 )

ترجمہ:  معاويہ بن صخر ابى سفيان بن حرب….. اہل ایمان کے ماموں ،اللہ کی وحی کے کاتب ،فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب(البداية والنهاية)میں تعارف کچھ یوں کروایا ہے:

هُوَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ صَخْرِ بْنِ حَرْبِ …..خَالُ الْمُؤْمِنِينَ، وَكَاتِبُ وَحْيِ رَبِّ الْعَالَمِين  ( البداية والنهاية:146/11 )

ترجمہ: معاويہ بن صخر ابى سفيان بن حرب…….. اہل ایمان کے ماموں ،اللہ کی وحی کے کاتب۔

علامہ ابن العماد(شذرات الذهب)میں تحریر فرماتے ہیں:

وكان من دهاة العرب وحلمائها، يضرب به المثل، وهو أحد كتبة الوحي ( شذرات الذهب:270/1 )

ترجمہ: آپ عرب کے انتہائی زیرک اور بردبار لوگوں میں سے تھے، آپ کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ آپ کاتبین وحی میں سے تھے۔

ان  ٹھوس دلائل کی روشنی میں معلوم ہوا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا کاتب وحی ہونا  ایک امر مسلّم ہے اور اس كا انکار کرنے والوں كا موقف کسی مستند دلیل پر مبنی نہیں ہے، اور اس حوالے سے جن اقوال کا سہارا لیا جاتا ہے اس کی کمزوری اور ضعف کو اہل علم واضح کر چکے ہیں۔

حافظ ذہبی نے جب اپنی کتاب (سير اعلام النبلاء) اور (تاريخ الاسلام) میں مفضل غلابی کے حوالہ سے یہ ذكر کیا کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ وحی کے کاتب اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ خطوط کے کاتب تھے تو اس پر رد کرتے ہوئے تنقیدی اسلوب میں فرمایا:

كذا قَالَ؛ وَقَدْ صَحَّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كُنْتُ أَلْعَبُ، فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عليه وآله وَسَلَّمَ وَقَالَ: «ادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ» وَكَانَ يَكْتُبُ الْوَحْي ( سيرأعلام النبلاء (3/123)،تاريخ الاسلام (309/4 )

ترجمہ: انہوں نے ايسے فرمایا ہے، جب کہ ابن عباس رضى الله عنہما سے ثابت ہے کہتے ہیں کہ میں کھیل رہا تھا پس مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور فرمایا:(معاویہ کو میرے پاس بلاؤ) اورسیدنا معاویہ وحی کی کتابت کیا کرتے تھے۔

اسی طرح حدیث کی مشہور کتاب (مشکوۃ المصابیح) کے مصنف خطیب تبریزی سیدنا معاویہ کا تعارف کراتے ہوئے فرماتے ہیں:

وهو أحد الذين كتبوا لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وقيل لم يكتب له من الوحي شيئا إنما يكتب له كتبة ( الإكمال في أسماء الرجال:99 )

ترجمہ: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ان میں سے ایک ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لکھا کرتے تھے۔اور ایساکہا گیا ہے کہ سیدنا معاویہ نے وحی میں سے کچھ نہیں لکھا بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے (خطوط ورسائل)لکھا کرتے تھے۔

بعض لوگ جو حضرت معاويہ رضى اللہ عنہ كے كتابت وحى كے تعلق سے شكوک ميں مبتلا ہیں وه ایک منطقی دلیل یہ  پیش کرتےہیں کہ چونکہ سیدنا معاویہ کاشمار دیر سے اسلام لانے والوں میں تھا، جب وحی کا بیشتر حصہ نازل ہو چکا تھا لہذا ان کی کتابت کا تعلق خطوط ورسائل سے تھا نہ کہ وحی سے، اس کا جواب یوں دیا جاسکتا ہے: 

پہلی بات:
وحی کا اطلاق قرآن وحدیث دونوں پر ہوتا ہےلہذا جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کاتب وحی ہے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن وحدیث دونوں کا کاتب ہے۔نبی کریم ﷺ نے بذات خود صحابہ کو ایک سے زائد موقعوں پرحدیث کو لکھنے کا حکم دیا۔جیسا کہ  عبداللہ بن عمرو بن العاص کی مشہور حدیث ہے:

اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا خَرَجَ مِنِّي إِلَّا حَقٌّ  ( مسند احمد:6510، سنن ابوداود:3646 )

ترجمہ: اللہ کے رسول ﷺ نے عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضى الله عنہما  کو حکم دیا کہ لکھو! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےمیرے منہ سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔

اسی طرح آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے صحابہ کو ابو شاہ کے لئے لکھنے کا حکم دیا:

اكتبُوا لأبِي شاهٍ  ( صحيح بخاري: 2434 )

ترجمہ: ابو شاہ کو لکھ کر دو۔

دوسری بات:
اگرچہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے اسلام کے وقت وحی کا بیشتر حصہ نازل ہو چکا تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا شریعت کی رہنمائی نبی کریم ﷺ کے آخری سانس تک جارى  نہیں تھی؟

تیسری بات:
کسی شخص کے وحی کے کاتب ہونے کےلئے کیا یہ ضروری ہے کہ اس نے وحی کا ایک بہت بڑا حصہ تحریرکیا ہو، بصورت دیگر اس کاکاتب وحی ہونا ثابت نہ ہوگا؟ جس شخص کو اللہ رب العالمین نے اسلام کی سمجھ بوجھ عطا کی ہے وہ یہ بات خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ کا شمار بھی دیر سے اسلام لانے والوں میں ہوتا ہے کیا وہ اللہ کے رسول ﷺ کی بیشتر احادیث کے حافظ نہیں تھے؟

چوتھی بات:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے اسلام کے وقت وحی کا بیشتر حصہ نازل ہو چکا تھا تو بعینہ یہ اعتراض خطوط ورسائل پر بھی وارد ہوتا ہے کہ بیشتر خطوط ورسائل لکھے جا چکے تھے تو خطوط و رسائل کی کتابت کے لئے مقرر کرنے کا کیا معنی؟

خلاصہ کلام یہ ہے کہ سيدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا کاتب وحی ہونا  ایک ثابت شدہ حقيقت ہے جس پر امت کا اتفاق ہے، اور جو لوگ سیدنا معاویہ کے کاتب وحی ہونے کے منکر ہیں ان کا انکار کسی ٹھوس دلیل پر مبنی نہیں ہے.

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے