كيا اسلام میں حد رجم (سنگ سار كرنا) مشكوك ہے؟

كيا اسلام میں حد رجم (سنگ سار كرنا) مشكوك ہے؟

وضاحت شبہ:
بعض حضرات كہتے ہیں کہ حد رجم مشكوك ہے کیوں کہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آنحضرت ﷺ نے رجم کا حكم سوره نور كی آیت کے نزول سے پہلے دیا یا بعد میں:
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ   ( سورۃ النور:2 )
ترجمہ: جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے، سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔
اس آیت میں زانی کی سزا سو کوڑے بتائی گئی ہے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی تفریق کے بغیر، تو اگر رسول اللہ ﷺ نے رجم سورہ نور کے نازل ہونے سے پہلے کیا تو اس کے نازل ہو جانے  كے بعد رجم کا حکم منسوخ ہوگیا! اسى طرح ابو اسحاق شیبانی کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی کو رجم کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے پوچھا: سورۃ النور سے پہلے یا اس کے بعد؟ کہا کہ: یہ مجھے معلوم نہیں ۔(صحیح بخاری:6813)
جواب شبہ

 

پہلی بات:
رجم کی سزا  کے بارے میں یہ دعوى كرنا كہ يہ مشکوک ہے بے بنیاد بات ہے کیونکہ کسی صحابی پربعض امورکے مخفی رہ جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ دیگر صحابہ کو بھی اس بات کا علم نہیں تھا بلکہ صحابی کا سوال کے جواب میں ’’لا ادری‘‘ کہنا ان کی امانت علمی اور احتیاط پر دلالت کرتا ہے کہ جو بات انہیں معلوم نہ تھی انہوں نے  اسکی نفی کردی ۔

دوسری بات:
سوره نور كى آيت میں زانی مرد اور زانی عورت کی جو سزا (سو کوڑے) بیان کی گئی ہے، یہ عام ہے، جس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑوں کی سزا ہے، لیکن اس آيت كے وسيع معنى كو سنت رسول نے خاص كر ديا اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرزِ عمل سے بھی اس کی وضاحت فرما دی کہ سورۃ النور میں جو زنا کی سزا بیان کی گئی ہے، وہ صرف غیر شادی شدہ زانى کی ہے۔ اگر زنا کار مرد یا عورت شادی شدہ ہوں گے تو ان کی سزا سو کوڑے نہیں ہوگی، بلکہ رجم (سنگ ساری) ہے۔

مفسر قرآن رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’جمہور مجتہدین نے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کے وجوب پر اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ تواتر سے یہ ثابت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔ علاوہ ازیں ابوبکر، عمر، علی، جابر بن عبداﷲ، ابو سعید خدری، ابوہریرہ، بریدہ اسلمی اور زید بن خالد اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے رجم کی روایات بیان کی ہیں اور انہی میں سے بعض راویوں نے سیدنا ماعز اور لخمیہ و غامدیہ عورت کے رجم کے واقعات بھی بیان کیے ہیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے کتاب اﷲ میں اضافہ کر دیا تو میں اس حکمِ رجم کو قرآن میں درج کر دیتا ‘‘۔التفسير الكبير 305/23

تيسری بات:
رجم کی سزا  کا وقوع يقينى طور پر سورہ نور کے نزول کے بعد ہی ہوا اس بات کی دلیل یہ ہے کہ سورہ نور میں واقعہ افک کا بیان ہےجو کہ ہجرت کے چھٹے سال یا اس سے قبل پیش آیا. ديكھیں: (صحيح بخارى : 4138، تفسير قرطبى: 198/12)

جبکہ وہ واقعات جن میں حد رجم قائم ہونے کا ذکر ہے وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد اور حضرت عبد اللہ بن عباس کے مدینہ آنے کے بعد کے ہیں اور یہ دونوں شخصیات رجم کے واقعے کے عینی شاہدین میں سے  ہیں. ديكھیں: صحيح بخارى (6430)، صحيح مسلم (1691)، فتح البارى (120/12)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا اسلام سن سات ہجری میں اور سیدنا عبد اللہ بن عباس کی اپنی والدہ کے ہمراہ مدینہ آمد سن نو ہجری میں ہوئی۔

ديكھیں: تاريخ خليفہ بن خياط (ص86)، تاريخ ابن ابى خيثمہ (2/19، 1525)، الاستيعاب (4/1771)، سير أعلام النبلاء للذہبى (3/ 333).

معلوم ہوا کہ آيت نور كے نازل ہو جانے كے بعد بھی آنحضرت ﷺ نے رجم كى سزا دی.

چوتھی بات:
حد رجم اگر منسوخ ہو چکی ہوتی تو صحابہ كرام اور بالخصوص خلفاء راشدين كيسے اسے نافذ کرتے؟! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا  رسول اللہ ﷺ کے بعد حد رجم قائم کرنا اس بات پر واضح دلیل ہے کہ انکے درمیان حد رجم کے بارے میں کوئی اشکال نہیں تھا اور وہ اسے منسوخ نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ اس روایت سے پتہ چلتا ہے:

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے منبر پر بیٹھے تھے انہوں نے کہا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود (اپنے زمانہ میں) رجم کروایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کر بیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقیناً رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہو جائے یا حمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کر لے۔(صحیح بخاری:6830، صحیح مسلم:1691)

حد رجم كو خلفاء راشدين اور صحابہ كرام نے انجام ديا، اس كے ليے ديكھیں: شرح صحيح البخارى لابن بطال (8/431)، المحلى لابن حزم (12/169)، والتمهيد لابن عبد البر (9/79)، المغنى (12/309)

آخرى بات:
ياد رہے كہ جس کو کوڑے مارنے كى سزا نافذ كرنے كا اختيار دیا گیا ہے وہ مسلمانوں کے حكمران اور سربراہان مملكت اور ان کے نائب ہیں، ناكہ ہر کوئی.

ابن رشد کہتے ہیں: ( اور حد کو نافذ  کرنے والا كون ہو؟… اس بات پر سب متفق ہیں کہ حكمران کو اسے انجام دینا چاہئے، اور یہی چیز باقی تمام سزاؤں (شرعى حدود) پر لاگو ہوتی ہے )۔ بدايہ المجتہد (4/228)

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے