
كيا نبی ﷺ کی ازواج اہل بیت ميں شامل ہیں؟
وضاحت شبہ:
بعض حضرات كا كہنا ہے نبی ﷺ کی ازواج اہل بیت ميں شامل نہیں! اس بات كى دليل یہ حديث بيان كى جاتى ہے کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح کو نکلے اور آپ ﷺ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر کجاووں کی صورتیں یا ہانڈیوں کی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔ اتنے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آئے تو آپ ﷺ نے ان کو اس چادر کے اندر کر لیا۔ پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی اس میں داخل کر لیا۔ پھر سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آئیں تو ان کو بھی انہی کے ساتھ شامل کر لیا پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی شامل کر کے يہ آيت تلاوت فرمائی:
( إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا) (صحیح مسلم:2424)
ترجمہ: (اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کرے اور تم کو پاک کرے اے گھر والو). ]الاحزاب: 33]
حدیث میں ازواج مطہرات کا ذکر نہیں ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہل بیت ميں شامل نہیں(صرف اہل کساء (چادر ) ہی اہل بیت ہیں) ۔
جواب شبہ
پہلی بات:
دعوی اور دلیل میں مطابقت نہیں ہےکیونکہ حدیث میں صرف اتنا مذکورہے کہ یہ لوگ میرے اہل بیت ہیں نہ کہ یہ کہ انکے علاوہ کوئی اہل بیت نہیں!
اس کی ایک اور مثال آپ ملاحظہ کرنا چاہیں تو وہ یوں ہے:
لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ [ سورۃ التوبۃ:108 ]
ترجمہ: وہ مسجد جس کی بنیاد ابتدا ہی سے تقویٰ اور خلوص پر رکھی گئی ۔
یہ فرمان الہی مسجد قبا کے بارے میں ہے۔ جبکہ صحیح مسلم کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد سے مراد مسجد نبوی ہے۔ (صحیح مسلم: 1398) گویا دونوں مسجدیں اس فرمان کے مصداق ہیں۔ کیونکہ دونوں کی بنیاد نبی اکرم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے رکھی۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ مثال اپنے رسالہ میں ذکر فرمائی ہے۔ (فضل اہل البیت و حقوقہم: 20-21).
قرآن کریم میں اللہ تعالی نبیﷺ کی بیویوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ( سورۃالاحزاب:32-33 )
ترجمہ: اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہواگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو۔ اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکٰوۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اپنے نبی کی گھر والیو!تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔
ان آیات مبارکہ سے واضح ہے کہ ازواج مطہرات اہل بیت ہیں۔
دوسری بات:
بیوی اہل بیت ہوتی ہے، یہ بات عربى لغت ، شريعت اور عرف عام ميں بھی ہے جیسا کے ہمیں ان دلائل سے پتا چلتا ہے:
عربى لغت کے مشہور امام خليل الفرا ہيدى فرماتے ہیں:
أهلُ الرجل زَوْجُه، وأخصّ الناس به، والتأهُّل التّزَوّج۔ العين (4/89)
ترجمہ: آدمى كے اہل اس كى بيوى، اور اس كے سب سے قريب ترين لوگ، اور اہل بنانے كا مطلب ہے شادى كرنا.
اسى طرح قرآن کریم کی مذكورہ آیات مبارکہ سے بھی یہ پتہ چلتا ہے:
اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں فرمايا:
(فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ) (سورۃ القصص:29)
ترجمہ: مو سٰی (علیہ السلام) نے مدت پوری کرلی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو کوہ طور کی طرف آگ دیکھی۔ اپنی بیوی سے کہنے لگے ٹھہرو! میں نے آگ دیکھی ہے بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر لاؤں یا آگ کا کوئی انگارہ لاؤں تاکہ تم سینک لو۔
حالانکہ حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ انکی بیوی کے علاوہ کوئی نہ تھا ۔
اوریوسف علیہ السلام کے قصےمیں عزیز مصر کی بیوی کا قول قرآن کریم میں کچھ اس طرح ہے :
(وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ)(سورۃ یوسف:25)
ترجمہ: دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے کی طرف سے کھینچ کر پھاڑ ڈالا اور دروازے کے پاس اس کا شوہر دونوں کو مل گیا تو کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے بس اس کی سزا یہی ہے کہ اسے قید کردیا جائے یا اور کوئی دردناک سزادی جائے ۔
اور اللہ تعالی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کے بارے میں فرماتا ہے:
وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ قَالَتْ يَا وَيْلَتَىٰ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَٰذَا بَعْلِي شَيْخًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۖ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ(سورۃہود:71-73)
ترجمہ: اور اس کی بیوی کھڑی تھی، سو ہنس پڑی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی۔ اس نے کہا ہائے میری بربادی! کیا میں جنوں گی، جب کہ میں بوڑھی ہوں اور یہ میرا خاوند ہے بوڑھا، یقیناً یہ تو ایک عجیب چیز ہے۔ انھوں نے کہا کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے گھر والو! بے شک وہ بے حد تعریف کیا گیا، بڑی شان والا ہے۔
ان تمام آیات میں واضح طور پر بیوی کو ہی اہل اور اہل بیت کہا گیا ہے۔
اور عرف عام میں بھی جب کسی کو اسکے بیوی بچوں کے ساتھ بلانا مقصود ہو تو یوں کہا جاتا ہے کہ آپ بمع اہل وعیال تشریف لائیں۔
تیسری بات:
اگر سورہ احزاب کی اس آیت میں اہل کساءازخود شامل ہوتے تو نبی ﷺ نے ان کو جمع کر کےیہ دعا کیوں فرمائی کہ اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں، تو ان سے گندگی کو دور فرما دے، اور انہیں اچھی طرح سے پاک کر دے جیسا کہ اس حدیث کی بعض روایات میں ہے؟
آپ ﷺکا دعا فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ آیت میں مذکور اہل بیت کے لفظ میں ا زخود شامل نہیں تھے بلکہ آپ ﷺ کی دعا کی بدولت شامل ہوئے ۔
چوتھی بات:
آپ کی ازواج مطہرات لفظ ”آل“ کے تحت داخل ہیں کیونکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
أَنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ
ترجمہ: صدقہ (و زکوۃ) آل محمد کے لئے حلال نہیں ( مسند احمد:7758 )
اس لئے ان کو خمس سے حصہ دیا جاتا تھا۔ نیز مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابن ابی ملیکہ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے:
أَنَّ خَالِدَ بْنَ سَعِيدٍ بَعَثَ إلَى عَائِشَةَ بِبَقَرَةٍ مِنْ الصَّدَقَةِ فَرَدَّتْهَا وَقَالَتْ إنَّا آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ (المصنف لابن ابی شیبۃ: 10811)
ترجمہ: خالد بن سعید نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر صدقہ کی ایک گائے بھیج دی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے واپس لوٹایا اور فرمایا: ہم آل محمد کے لئے صدقہ حلال نہیں۔
پانچويں بات:
نبی کریم ﷺ کا ان عظیم الشان ہستیوں کو چادر تلے جمع کرنا بطور اہتمام شان تھاحالانکہ آپ ﷺ کےاہل بیت میں آپ کی ازواج مطہرات کے علاوہ علی ، عقیل، جعفر اور عباس کی اولادبھی شامل ہیں جیسا کہ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث(غدیر خم والی حدیث) میں بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں (كہ ان کے بارے ميں اللہ تعالى سے ڈرتے رہنا اور ان كے حقوق پورى طرح ادا كرنا )، تین بار فرمایا۔ اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپ ﷺ کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ علی، عقیل، جعفر اور عباس کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔(صحیح مسلم:2408)
مذکورہ حدیث میں بھی واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ﷺ کی بیویاں اہل بیت میں سےہیں، اور کیابقیہ اہل بیت جن کا حدیث میں ذکر ہے( علی، عقیل، جعفر اور عباس کی اولاد)کو بھی حدیث کساء (چادر ) میں مذکور نہ ہونے کی بنا پر اہل بیت سے خارج سمجھا جاسکتا ہے؟!۔ يقينا نہیں
آخرى بات:
ايک شبہ یہ پيش كيا جاتا ہے کہ اگر صدقہ ازواج مطہرات پر حرام ہوتا تو ان کے غلاموں اور لونڈیوں پر بھی حرام ہونا چاہئے تھا جس طرح بنو ہاشم کے غلاموں اور لونڈیوں پر تھا، حالانکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ کا گوشت بھیجا گیا اور انہوں نے کھایا۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں منع نہیں کیا، جبکہ بریرہ رضی اللہ عنہا عائشہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ لونڈی تھیں۔
جواب: درحقیقت اسی بات سے ان لوگوں کو اشتباہ ہوا جنہوں نے ازواج مطہرات کے لئے صدقے کا استعمال جائز کہا ہے۔ اس اشتباہ کا جواب یہ ہے کہ ازواج مطہرات پر صدقے کی حرمت ذاتی نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ کی وجہ سے ہے ورنہ آپ کے ساتھ نکاح سے پہلے ان پر صدقہ حرام نہیں تھا، اس لئے یہ حرمت ان کے غلاموں پر لاگو نہ ہوگی۔ جبکہ بنو ہاشم پر صدقے کی حرمت ذاتی ہے اس لئے یہ ان کے غلاموں پر بھی لاگو ہوگی۔
اس بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں داخل ہیں، کیونکہ اہل بیت والی آیت سے ما قبل چند آیات اور بعد والی آیت میں خطاب ازواج مطہرات سے ہے لہذا ان کو اہل بیت سے نکالنا ممکن نہیں۔ (جلاء الافہام: 113-114